دہلی میں سحری کے وقت اٹھانے والوں کی روایت نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ یہ لوگ گلی گلی گھومتے ہیں اور ڈھول کی تھاپ، سیٹیوں اور نعروں سے لوگوں کو سحری کے لیے جگاتے ہیں۔
یہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ لوگ سحری کے لیے وقت پر بیدار ہوں اور روزے کا دن دائیں پاؤں سے شروع کر سکیں۔
پرانی دہلی میں بلّی ماراں کے رہنے والے غیاث الدین ہان کے مطابق سحری کے لیے جگانے کا یہ نظام مغلوں کے دور سے جاری ہے، جب لاؤڈ سپیکر وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔
’لوگوں کو اچھا لگتا ہے جب میں انہیں رمضان میں جگاتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو وہ شکایت کریں گے۔‘
ان لوگوں کو ’سحری والا‘ کہا جاتا ہے۔
یہ عموماً مرد ہوتے ہیں جو صبح تقریباً ڈھائی یا تین بجے، طلوع فجر سے ایک گھنٹہ پہلے اپنے چکر شروع کرتے ہیں۔
یہ روایتی موسیقی کے آلات جیسے ڈھولک یا طبلہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں یا دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے ایک مخصوص تال بجاتے ہیں جسے پورے محلے میں سنا جا سکتا ہے۔
ڈھول کے علاوہ کچھ سحری والے سیٹیاں یا بگل بھی استعمال کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر کوئی سحری کے لیے تیار ہے۔
سحری والوں کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ سڑکوں پر چلتے ہوئے یہ نعرے بھی لگاتے ہیں۔ قرآن کی آیات تلاوت کرتے ہیں یا حمد پڑھتے ہیں۔
’سحری والا‘ کی روایت دہلی کی ثقافت میں پیوست ہے، جو رمضان کی اقدار کو برقرار رکھنے کے عزم کا ثبوت ہے۔
ڈھول بجانے اور نعروں کی وجہ سے ہونے والے شور اور خلل کے باوجود، دہلی کے لوگ سحری والوں کا بہت ساتھ دیتے ہیں اور اکثر صبح سویرے ان آوازوں کا انتظار کرتے ہیں۔
سحری والوں کو ان کی خدمات کا معاوضہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی وہ کسی معاوضے کی امید رکھتے ہیں۔
وہ فرض کے احساس اور اپنی برادری کی خدمت کرنے کی خواہش سے متحرک ہیں۔
ان میں سے بہت سے لوگ عاجزانہ پس منظر سے آتے ہیں اور اس کام کو معاشرے میں بامعنی انداز میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے کام کے ساتھ ان کی لگن اور وابستگی واقعی متاثر کن اور رمضان کی روح کا ثبوت ہے۔
غیاث الدین ہان بتاتے ہیں: ’روزے کے پہلے دن سے آخر تک میں پوری رات جاگتا ہوں۔ میں یہ خدمت اس لیے کرتا ہوں کہ اللہ مجھے ان لوگوں کی دعاؤں سے معاف کر دے، جو میری وجہ سے وقت پر جاگ جاتے ہیں۔‘
حالیہ برسوں میں بدلتے ہوئے طرز زندگی، الارم گھڑیوں اور سمارٹ فونز کی بڑھتی ہوئی دستیابی کی وجہ سے ’سحری والوں‘ کی روایت خطرے میں پڑ گئی ہے۔
بہت سے نوجوان اب سحری کے لیے جاگنے میں دلچسپی نہیں رکھتے یا جاگنے کے لیے ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے مطمئن ہیں۔
تاہم، ابھی بھی بہت سے محلوں میں ’سحری والوں‘ کی زبردست مانگ ہے۔
خاص طور پر پرانے رہائشیوں میں، جو روایت اور اس سے پیدا ہونے والے برادری کے احساس کی قدر کرتے ہیں۔
اگرچہ اس روایت کو جدید دور میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ سحری والے آنے والی نسلوں کے لیے دہلی کے رمضان کے تجربے کا لازمی حصہ بنے رہیں گے۔