طالبان حکومت کے ایک ترجمان نے منگل کو کہا ہے کہ حالیہ پاکستانی فضائی حملوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر شروع ہونے والی جھڑپیں اب رک گئی ہیں تاہم پاکستان نے اس بیان کی تصدیق نہیں کی ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ ’صورت حال پر امن ہے، لڑائی رک گئی ہے۔‘
پاکستان کے سرحدی ضلع کرم کے ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ افغان سکیورٹی فورسز نے مارٹر گولوں سے علاقے کو نشانہ بنایا تھا۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس کے نتیجے میں تین سکیورٹی چوکیوں اور عام شہریوں کے پانچ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’آج سرحد پر خاموشی چھائی ہے اور سکیورٹی فورسز نے دوبارہ اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔‘
طالبان افغان سرزمین سے حملے روکیں، پاکستان تحمل کا مظاہرہ کرے: امریکہ
افغانستان کی طالبان حکومت کے اس بیان سے قبل امریکہ نے پاکستان کی جانب سے افغان حدود میں کیے جانے والے حملوں پر اپنے ردعمل میں اسلام آباد پر تحمل کا مظاہرہ کرنے اور افغان طالبان پر اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا کہ ان کی سرزمین دیگر ممالک پر دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔
پیر کو واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وہ خبریں دیکھی ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں فضائی حملے کیے ہیں جو کہ خیبر پختونخوا میں ہفتے کو کیے جانے والے حملے کا جواب تھے۔‘
اس سے قبل پیر کو ہی وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کرین جین پیئر نے نیوز بریفنگ کے دوران ویدانت پٹیل سے ملتا جلتا بیان دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گرد حملے افغان سرزمین سے نہ ہوں۔‘
انہوں نے پاکستان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔ ہم دونوں فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔‘
پاکستان کی افغان علاقوں میں کارروائی
گذشتہ روز پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ پیر کی صبح پاکستان نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آپریشن کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے، جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر پاکستان میں متعدد دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جان سے گئے۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ نے 16 مارچ 2024 کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی چوکی پر کیے جانے والے حملے کا ذکر کیا، جس میں پاکستان فوج کے سات اہلکار جان سے گئے تھے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق: ’گذشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر عبوری افغان حکومت کو بارہا اپنی شدید تشویش سے آگاہ کیا۔
’یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور پاکستانی سرزمین پر دہشت گرد حملے کرنے کے لیے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کرتے رہے ہیں۔‘
افغان وزارت خارجہ نے پاکستان کے فضائی حملوں کے ردعمل میں کابل میں پاکستان کے سفیر کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا تھا۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’پاکستان افغانستان کے عوام کا بہت احترام کرتا ہے، تاہم افغانستان میں برسراقتدار لوگوں میں سے بعض عناصر فعال طور پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
مزید کہا گیا: ’ایک ایسے برادر ملک کے خلاف اس طرح کا رویہ، جو ہر مشکل وقت میں افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑا رہا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ تنگ نظر سے کام لیا جا رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران افغانستان کے عوام کی حمایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کا بیان
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان سے قبل ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کا یہ حملہ ان متاثرین کے گھروں پر کیا گیا ہے جو کئی سال قبل پاکستان سے نقل مکانی کر کے افغانستان چلے گئے تھے۔
بیان میں کمانڈر عبداللہ شاہ کا ذکر کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کا کہنا تھا کہ وہ ’اپنی سر زمین‘ سے ’دشمنوں‘کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹی ٹی پی نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں اس کے ایک کمانڈر عبداللہ شاہ یہ کہتے سنے جا سکتے تھے کہ وہ پاکستان میں موجود ہیں اور خیریت سے ہیں جبکہ ان کے بارے میں ’پروپیگنڈہ‘ کیا جا رہا ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستان کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس نے کس شخص یا تنظیم کے خلاف افغانستان میں کارروائی کی تھی۔
افغان طالبان کا موقف
پاکستان کے افغانستان میں فضائی حملوں کی پہلی اطلاع افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کی صبح ایک بیان میں دی تھی جو انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کیا تھا۔
افغانستان میں پاکستانی طیاروں کی بمباری کے بہت برے نتائج نکل سکتے ہیں: افغان حکومت
— Independent Urdu (@indyurdu) March 18, 2024
مزید تفصیلات: https://t.co/JPt9SUbxKI pic.twitter.com/cT9lo1uVwe
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے پیر کی صبح تین بجے افغان صوبے پکتیکا کے علاقے برمل میں مبینہ طور پر بمباری کی ہے جس سے آٹھ افراد جان سے گئے ہیں۔
ذبیح اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بمباری عام لوگوں کے مکانات پر کی گئی اور مرنے والوں میں تین خواتین تین بچے شامل ہیں۔ اسی طرح خوست میں ایک مکان پر بمباری سے دو افراد جان کھو بیٹھے ہیں۔‘
افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’عبداللہ نامی شخص، جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اس حملے کا نشانہ تھا، پاکستان میں موجود ہے اور دوسرا یہ کہ اس علاقے میں ایک ہی قبیلے کے لوگ سرحد کے آر پار رہتے ہیں جن کا آنا جانا معمول کی بات ہے۔‘
افغان ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر کنٹرول کی کمی، نااہلی اور دیگر مسائل کا ذمہ دار افغانستان کو نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ ’ایسے واقعات کے بہت برے نتائج نکل سکتے ہیں جو پاکستان کے لیے اچھے نہ ہوں گے۔‘
تاہم پاکستان نے بعد میں جو بیان جاری کیا اس میں ٹی ٹی پی کے گل بہادر گروپ کے خلاف کارروائی کرنے کی تصدیق کی گئی تھی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔