انڈیا کی ایک عدالت نے دہلی کے سینئر سیاست دان اروند کیجریوال کو سات دن کی عدالتی تحویل پر تحقیقاتی ادارے کے حوالے کر دیا ہے جس سے آئندہ عام انتخابات میں نریندر مودی کا مقابلہ کرنے والے ملک حزب اختلاف کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم مودی کے بڑے سیاسی حریف اروند کجریوال سے اب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) بدعنوانی کے الزامات پر پوچھ گچھ کرے گا۔
فنانشل کرائم ایجنسی نے جمعرات کی رات عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال کو نئی دہلی کے لیے شراب پالیسی کے معاملے میں بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا۔ کیجریوال انڈیا میں گرفتار ہونے والے پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنہیں ان کے عہدے پر ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
اس گرفتاری کو اپریل سے نئی حکومت کے انتخاب کے لیے شروع ہونے والی پولنگ سے قبل مودی انتظامیہ کی جانب سے بھارتی حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن قرار دیا جا رہا ہے۔
دہلی میں سینکڑوں مظاہرین ہفتے کو دوسرے دن بھی سڑکوں پر نکل آئے اور کیجریوال کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے ’کیجریوال مودی کا اختتام‘ اور ’آمریت برداشت نہیں کی جائے گی‘ کے نعرے لگائے۔ انہوں نے مودی پر ایمرجنسی لگا کر ملک پر حکومت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جو اپوزیشن طویل عرصے سے کرتی آ رہی ہے۔ اپوزیشن نے مودی پر انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کو دبانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کو استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا۔
مرکزی تحقیقاتی ادارے کے افسروں نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دہلی حکومت کی اس شراب پالیسی کے پیچھے ’سازشی‘ کی حیثیت سے موجود رہے جسے اب منسوخ کیا جا چکا ہے۔
ابتدائی طور پر اس پالیسی کو شہری علاقے میں شراب کی فروخت کے عمل کو جدید بنانے کے لیے کامیاب قرار دیا گیا کیوں کہ پالیسی کے تحت خوردہ فروشوں کو تقریباً 185 فیصد کے انتہائی زیادہ منافعے کی اجازت دی گئی جو ممکن نہیں۔
تحقیقاتی ادارے نے کیجریوال پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے تقریباً دو سال قبل شراب کے ٹھیکیداروں سے ایک ارب روپے رشوت لی۔ کیجریوال کی پارٹی نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور انہیں سیاسی قرار دیا ہے۔
کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کیجریوال نے ہفتہ کو آن لائن پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ جیل سے کیجریوال کا پیغام لے کر آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کے بیٹے اور بھائی اروند کیجریوال نے جیل سے آپ کے لیے پیغام بھیجا ہے کہ ’میرے پیارے ہم وطنو، مجھے کل گرفتار کر لیا گیا۔ چاہے میں اندر ہوں یا باہر، میں ہر لمحہ ملک کی خدمت کرتا رہوں گا۔‘
سنیتا کیجریوال نے کہا کہ اپنے پیغام میں ان کے خاوند نے کہا کہ ’میری زندگی کا ہر لمحہ قوم کے لیے وقف ہے۔ (میرے) خون کا ایک ایک قطرہ قوم کے لیے ہے۔ میں اس زمین پر صرف جدوجہد کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ میں نے آج تک بہت جدوجہد کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بڑی جدوجہد کرنا میری قسمت ہے۔‘
سنیتا نے مزید کہا کہ کیجریوال نے شہریوں سے کھلی اپیل کی ہے کہ وہ ’بھارت (انڈیا کا ہندی زبان میں نام) کو ایک بار پھر عظیم بنائیں۔‘
55 سالہ ممتاز سیاست دان کو 28 مارچ تک تحویل میں دے دیا گیا ہے تاکہ ان اس معاملے میں’تفصیلی اور تسلسل کے ساتھ پوچھ گچھ‘ کی جا سکے جسے ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) نے شراب پالیسی سکینڈل قرار دیا ہے۔ کیجریوال کے نائب منیش سسودیا، جو دہلی کے وزیر تعلیم کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے، بھی اس مقدمے میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عام آدمی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینیئر رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو بھی ای ڈی نے اس پالیسی میں منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔
ہفتے کو عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ نئی دہلی میں ان کے پارٹی دفتر کی طرف جانے والی سڑکوں کو دہلی پولیس نے بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے دفتر تک ان کی رسائی متاثر ہوئی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے سیاست دانوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک ای میل میں یہ بات کہا: ’دہلی پولیس نے آج دوپہر ہمارے دفتر جانے والے راستے بند کر دیے اور تمام درخواستوں کے باوجود کسی کو بھی دفتر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ ایک سیاسی جماعت ایسے جابرانہ ماحول میں الیکشن کیسے لڑ سکتی ہے؟‘
دہلی کی وزیر خزانہ اور عام آدمی پارٹی کی سینئر لیڈر اتیشی نے کہا کہ پارٹی ارکان نے الیکشن کمیشن سے ’فوری ملاقات کا وقت مانگا ہے تاکہ لوک سبھا کے انتخابات میں یکساں مواقع کو یقینی بنایا جاسکے۔‘
جمعرات کو کیجریوال کی گرفتاری کے فوراً بعد عام آدمی پارٹی کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے درجنوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
ایک ہی نام سے پکارے جانے والے اتیشی نے کہا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کا مقصد انہیں عام انتخابات میں انتخابی مہم چلانے سے روکنا ہے۔
’انڈیا‘ نامی متحدہ اپوزیشن بلاک کا ایک اہم حصہ کیجریوال وہ آنے والے انتخابات میں مودی حکومت کے خلاف ووٹ کے لیے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وہ میں ہندو اکثریتی حکومت کے رہنما کو تیسری بار وزیر اعظم بننے سے روکنا چاہتے تھے۔
اس کریک ڈاؤن پر انڈین حکام کو بھی بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ نے انڈیا میں جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ کیجریوال کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ٹرائل کا موقع ملے گا۔
تاہم انڈٰیا کی وزارت خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ملک کے اندرونی معاملات میں ’کھلم کھلا مداخلت ہے۔‘
انڈیا کے انتخابی ماحول پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین نے اس گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار نیرجا چوہدری نے کہا کہ ’یہ ہراسانی کی طرح دکھائی دیتا کیوں کہ صرف اپوزیشن رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی میں کسی کے خلاف تحقیقات نہیں ہو رہی۔‘
’یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent