انڈیا کی ایک عدالت نے اسلامی مدارس پر پابندی لگا دی

انڈیا کی عدالت نے کہا کہ اسلامی دینی مدارس سے متعلق قانون سے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

انڈیا میں حیدرآباد کے مدرسہ امام انوار اللہ میں 14 جون 2016 کو رمضان کے مہینے کے دوران مسلمان طلبا قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں (فائل فوٹو: نوح سیلم/ اے ایف پی)

انڈیا کی ایک عدالت نے ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں اسلامی مدارس پر پابندی کا حکم دیا ہے جبکہ لاکھوں طلبہ کو روایتی سکولوں میں داخلے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ عدالتی حکم ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں قومی انتخابات سے قبل مسلمانوں کو مزید الگ کیا جائے گا۔

اتر پردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو ریاست میں مدرسوں سے متعلق 2004 کا قانون منسوخ کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی دینی مدارس سے متعلق قانون سے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

جسٹس سبھاش ودیارتھی اور وویک چوہدری نے کہا کہ ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ چھ سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو باقاعدہ طور پر تسلیم شدہ اداروں میں داخل کروایا جائے۔

دینی مدارس کئی دہائیوں سے مسلم آبادی والی انڈین ریاستوں کا حصہ ہیں اور ان کی توجہ تعلیم اسلامی طریقوں پر مرکوز ہے جب کہ انڈیا کے دیگر سکولوں میں روایتی تعلیم دی جاتی ہے۔

ریاست میں مدرسہ تعلیم کے بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے کہا کہ اس اقدام سے 25 ہزار مدارس کے 27  لاکھ طلبہ اور تقریباً 10 ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ عدالت نے اپنے حکم پر عمل کا کوئی وقت نہیں دیا تاہم مدرسوں کو فوری طور پر بند کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمال مشرقی حصے میں واقع انڈیا کی ریاست اتر پردیش کی 24 کروڑ کی آبادی میں پانچواں حصہ مسلمان ہیں۔

نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتر پردیش شاخ کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے کہا کہ وہ مدرسوں کے خلاف نہیں اور مسلم طلبہ کی تعلیم کے بارے میں فکرمند ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہم کسی مدرسے کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہم امتیازی سلوک کے خلاف ہیں۔ ہم غیر قانونی فنڈنگ کے خلاف ہیں اور حکومت عدالت کے حکم کو دیکھنے کے بعد مزید کارروائی کا فیصلہ کرے گی۔‘

امریکہ میں قائم تحقیقی گروپ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ہر روز اوسطاً دو واقعات پیش آئے۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم ریسرچ گروپ انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) کی جانب سے رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر واقعات ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔

نفرت پر مبنی تقاریر کے واقعات گذشتہ سال اگست سے نومبر تک عروج پر تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب چار اہم ریاستی انتخابات میں انتخابی مہم اور ووٹنگ جاری تھی۔

انڈیا میں اگلے ماہ سے عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں مودی تیسری بار اقتدار میں آنے کی منفرد کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم ملک میں مسلمانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بی جے پی کے کچھ ارکان اور اس سے وابستہ افراد پر اسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر کو بڑھاوا دینے اور مسلمانوں کی املاک کو مسمار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا