کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ایک مولوی صاحب کا ظہور ہوا۔ ان کی طاقت ان کے خطبوں میں صاف جھلکتی تھی۔ جہاں علم بٹنا چاہیے تھا، وہاں گالیاں بٹنے لگیں اور جہاں سے انصاف کی توقع تھی وہاں سے ’اپنے لوگ‘ کی گردان سنائی دینے لگی۔
ان کی شدت پسندی کے آگے ریاست نے بھی گھٹنے ٹیک رکھے تھے۔
مولوی صاحب نے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اوپر سے نیچے تک تبدیل کر کے رکھ دیا۔ جب تک انہیں طاقت دی گئی، وہ ملک و قوم کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔ اس کے بعد انہیں حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ ان کے پیروکاروں نے حسبِ توفیق شور شرابہ مچایا، پھر خاموش ہو گئے۔ وہ رہا ہوئے تو چپ چاپ ایک طرف ہو گئے، جانتے تھے ان کا پھیلایا ’علم‘ اپنا رنگ ضرور دکھائے گا اور ہم اب روز اس کے رنگ دیکھتے ہیں۔
مذکورہ مولوی صاحب ہمارے ہاں پائے جانے والی شدت پسندی کے بانی نہ سہی، لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ انہوں نے اس عمل کو گھر گھر پہنچا دیا۔
پہلے وہ ایک تھے، اب ان جیسے کئی منظر پر آ گئے ہیں۔ یہ سارے چیختے ہیں، پوچھتے ہیں، کون کہتا ہے اسلام امن کا درس دیتا ہے؟
کسی میں ہمت نہیں کہ وہ اٹھے اور ایسے لوگوں کو جھٹلائے یا کم از کم چپ رہنے کا ہی کہہ دے۔
اس خاموشی یا خوف یا اپنے کام سے کام رکھنے کی پالیسی کا نتیجہ ہم ہر دو چار ماہ بعد کسی نہ کسی مندر یا گرجا گھر کی توڑ پھوڑ کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ایمان کی حدت زیادہ ہو تو معاملہ قتل و غارت تک بھی جا پہنچتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشال خان کی والدہ ابھی تک اس کی ٹوٹی انگلیوں کو بھول نہیں پائیں۔ ہماری جیلوں میں کتنے ہی قیدی توہینِ مذہب کے نام پر قید ہیں۔ ان میں سے کئیوں کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر جیل میں رکھا گیا ہے۔ ان کے حق میں بولنے والے انگلی کی پوروں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان کا شور بھی بس ٹوئٹر تک ہی محدود رہتا ہے۔ جو زیادہ پر نکالے، اسے خود اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
عالمِ ایمان یہ ہے کہ بچہ غوں غاں شروع کرتا ہے تو اسے اللہ بولنا سکھاتے ہیں۔ ماں بچے کو کندھے سے لگائے گھنٹوں اللہ اللہ کی گردان کرتی رہتی ہے۔ چند دن میں اللہ بولنا سیکھنے والے پوری عمر بھی لگائیں تو صرف لفظ اللہ کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے مگر جانے کہاں سے دوسرے کے مذہب پر انگلی اٹھانا سیکھ جاتے ہیں۔
بچپن میں امی نے کچھ دعائیں سکھائی تھیں جن میں سے ایک ’ربِ زدنی عِلما‘ تھی جو ہم روز اپنے علم میں اضافے کے لیے دس سے بیس بار دہراتے تھے۔ بڑے ہوئے تو اپنے ایمان کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگے۔ تھوڑے اور بڑے ہوئے تو اندازہ ہوا ہمارے ایمان سے زیادہ تو خود اسلام خطرے میں ہے۔ خطرہ بھی وہ جو دوسروں سے زیادہ اس کے اپنے اسے پہنچا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال دیکھی تو دل خود بخود اسلام کی سلامتی کی دعا کرنے لگا۔
اے اللہ! اسلام کی مسلمانوں سے حفاظت فرما۔
ہم تیرے بندے ہرگز تیرے دینِ مکمل کے قابل نہیں۔ تیرا دین اب ہمارا کاروبار بن چکا ہے۔ جنت کے تو ہم اتنے شیدائی ہیں کہ اپنے اعمال ٹھیک کرنے کی بجائے دوسروں کو زبردستی کلمہ پڑھوا کر اہلیت کا معیار پُر کر رہے ہیں۔ کم بخت کیا جانیں، ایسے تو جہنم بھی نہ ملے۔
یا الٰہی، تیرا دینِ امن بے امنوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے۔ تیرے دین کی حفاظت کا بیڑہ ایسے لوگ اٹھا چکے ہیں جو شاید اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں سکول کے ایک استاد پر توہین کا الزام لگا۔ صالحین کا ایک مشتعل گروہ فوراً تیرا دین بچانے پہنچ گیا۔ ایک مندر کی حسبِ توفیق بے حرمتی کی گئی اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کی دکانوں میں بھی لوٹ مار کی گئی۔ جانے یہ کون سا اسلام ہے جس کی یہ پیروی کرتے ہیں؟
اے خدا، یہ لوگ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی کمسن لڑکیوں کو زبردستی کلمہ پڑھوا کر ان سے نکاح کرتے ہیں۔ صبح شام ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ توہین کا قانون ان کا ہتھیار ہے۔ جو ان کے سامنے چوں چرا کرے اس پر یہ ہتھیار تان کر اس کی زندگی کا چراغ گُل کر دیتے ہیں۔
یا الٰہی ایسی طاقت تیرے علاوہ کسی پر نہیں سجتی۔ زمین کے ان خداؤں کو دوبارہ سے انسان بنا دے۔ ایسا انسان جو تیری مرضی کے بغیر پلک تک جھپکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
آمین۔