محرم اس بار بھی آیا، اس بار بھی گزرگیا۔ صفحہ ہستی پر خیر خیریت رہی۔ صفحہِ مستی پر گھمسان کا رن پڑا رہا۔ مولوی پنڈت تہذیب اور مذہب میں فرق نہیں کرتا، مگر مولوی سے شکوہ کیا اور پنڈت سے شکایت کیسی۔
ترقی پسندی تو نام ہی اُس باریک لکیر کی نشاندہی کا ہے جو ثقافت اور عبادت کے بیچوں بیچ گزر رہی ہوتی ہے۔ یہ تیسرا محرم دیکھنے میں آیا جس میں ترقی پسندوں کو اس خواہش کے ساتھ جیتے مرتے دیکھا گیا کہ عزاداری کے ہر تہذیبی اور ثقافتی رنگ کو ماردیا جائے۔ اس ملک کے المیوں میں بڑا المیہ فرقہ واریت ہے۔ ماہرین کے پاس فرقہ واریت کی سطح کو ماپنے کے ہزار پیمانے ہوسکتے ہیں۔ ہم ایسے کند ذہنوں کے پاس پیمائش کا ایک بڑا پیمانہ عاشورہ ہے۔
اس ملک میں فرقہ واریت کی سطح بہت نیچے تھی۔ سادہ سی دلیل یہ کہ کراچی، لاہور اور اس کے مضافات میں مرکزی سبیلیں سنی لگایا کرتے تھے۔ پھر اس ملک میں فرقہ واریت کی سطح بلند ہوگئی۔ سیدھی سی دلیل یہ کہ سنیوں نے سبیلیں لگانا ترک کردیں۔ اگر یہ ترک کرنا محض اس لیے ہوتا کہ وہ مذہبی رسومات سے عاجز آگئے تھے، تو پھر تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔ مگر بات تشویش کی ہے اور اسی لیے کہ لوگوں نے سبیلوں کی روایت کو اس انکشاف کے بعد ترک کیا کہ روز حشر جن اہم معاملات سے متعلق تفتیش کی جائے گی، نذر ونیاز اور سبیل ان میں سے ایک ہے۔
رضویہ سوسائٹی میں ایک چچا ماجد ہوتے تھے۔ زیاں کاری کا بیان کروں اور چچا ماجد کا ذکر نہ کروں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ علم و ادب سے وہ شغف رکھتے تھے۔ گھر میں زمین سے چھت تک کتابوں کا ایک ڈھیر ہوتا تھا۔ گھر کا دروازہ رات گئے تک کھلا رہتا تھا۔ جو آئے جب آئے ساغر وپیمانہ حاضر ہے۔ پروین شاکر اور پروفیسر حسن رضوی جیسے لوگوں نے اسی گھر سے تنکے چنے ہیں۔ عارف امام یہاں سرجھکائے بیٹھتے رہے ہیں۔ تسنیم عابدی صاحبہ اور ان کے پورے علمی خانوادے کو اس گھر سے نسبت رہی ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس گھر کا دروازہ بند ہوا ہے۔ دروازہ ہی بند نہیں ہوا، اس گھر کی دیواریں بھی اونچی ہوئیں اور پھر دیوار پر خاردار باڑ بھی بچھ گئی۔
کیا یہ اس لیے ہوا کہ حالات خراب ہوگئے تھے؟ نہیں جناب! محض حالات کی خرابی وجہ ہوتی تو شاید کوئی بات تھی۔ وجہ یہ تھی شیعہ علما کو چن چن کر قتل کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور یہ فیصلہ اس لیے ہوا کہ یہ اہلِ علم کسی جرم کا ارتکاب کررہے تھے؟ ایسا ہوتا چلو پھر بھی کوئی بات تھی۔ یہ فیصلہ تو اس لیے ہوا کہ ہماری رائے میں انہوں نے پیدا ہونے کے لیے ٹھیک گھرانے کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ رضویہ امام باڑا ہمارا مقامی امام باڑا تھا۔ یہاں جب بھی مجلس ہوئی سکیورٹی کے فرائض سنیوں نے انجام دیے۔ محبتوں کے دیس کو مگر زاہدوں کی نظر لگنا شروع ہوگئی۔ وہ وقت بھی آگیا کہ سنیوں نے سکیورٹی کی ذمہ داری کبھی مانگی نہیں اور شیعوں نے کبھی دی نہیں۔ سنی مانگتے تو کس منہ سے مانگتے۔ شیعہ دیتے تو کس دل سے دیتے۔ جس شہر میں اپنے سائے سے خوف آنے لگا تھا اُس شہر میں کسی پر کوئی اعتبار کیوں کرتا اور کیسے کرتا۔ سنی آبادی کو یہ تلخ احساس ہونے لگا تھا کہ اعتبار کے ہم قابل نہیں رہے۔
شیعوں کو ادراک تھا اعتبار کے سوا ان کے پاس کچھ بچا نہیں۔ رواداری کے ماحول میں یہ تناؤ اگرکسی انتظامی پیچیدگی کی وجہ سے پیدا ہوا ہوتا تو بھی کوئی بات تھی۔ یہ تناؤ تو اس بات کے کھلنے پر پیدا ہوا کہ شیعوں سے مراسم رکھو تو خدا مائنڈ کرتا ہے۔ رضویہ سوسائٹی میں امام حسن عسکری سکول ہے۔ رضویہ کے ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے اکثر سنی بچوں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی۔ ایک، دو کو چھوڑ کر میرے سارے ہمجولیوں کی ابتدائی تعلیم اسی اسکول سے ہوئی۔ عید پر کراچی گیا تو میں نے محسوس کیا محلے کی گلیوں مکانوں سے ہر سکول کی وین گزرتی دکھائی دے رہی ہے۔ نہیں دکھی تو حسن عسکری کی وین نہیں دکھی۔ فہد سے پوچھا، علاقے کا کوئی بچہ نظر میں ہے جو حسن عسکری جاتا ہو؟ بولا، پاگل واگل ہوگیا ہے کیا؟ نام بھی مت لیجیو حسن عسکری کا۔ خار کھاتے ہیں لوگ خار، تم سکول کی بات کررہے ہو، زمانے ہوگئے سنی گھرانے تو اب زلفی بھائی کے ٹیوشن سینٹر سے بھی کنی کتراتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خار کھانے اور کنی کترانے کی وجہ تعلیمی معیار میں کمی ہوتی تو کوئی بات تھی۔ مائیں تو اس لیے ڈر گئی تھیں کہ سنی اداروں کے ہوتے اگر شیعہ ادارے سے تعلیم دلوائی تو کعبے کس منہ جائیں گے؟ ہمارے محلے کے اے یو اسلامیہ سکول میں تین اساتذہ شیعہ تھے۔ امام حسن عسکری سکول کے کچھ اساتذہ سنی تھے۔ اے یو اسلامیہ کی بغل میں عثمانیہ مسجد لگتی ہے اور حسن عسکری کے ناک کے نیچے رضویہ امام باڑا۔ ظہر کی نماز کے لیے شیعہ اساتذہ عثمانیہ مسجد جاتے تھے اور سنی اساتذہ رضویہ امام باگاہ چلے جاتے۔ وقت آیا کہ شیعہ اساتذہ نماز ظہر کے لیے چالیس قدم دور اپنی امام بارگاہ جانے لگے اور سنی اساتذہ رضویہ سے بارہ پتھر باہر آنے لگے۔ یہ کیوں ہوا؟ اگر یہ کسی بھی سبب سے ہوا ہوتا تو بات ہضم ہوجاتی۔ یہ سب تو اس لیے ہوا کہ عبادت گزاروں کو عبادت کی رائیگانی کا احساس کاٹنے لگا تھا۔ کیا یہ فاصلے بیٹھے بٹھائے اور چلتے چلاتے یونہی پیدا ہوگئے؟ نہیں صاحب! یہ ریاست کی برسوں کی محنت و ریاضت ہے جس کے نتیجے میں ہم نے یہ دن دیکھے ہیں۔
چار عشروں کے شیعہ سنی تصادم میں ہزار قیامتیں آکر گزر گئیں۔ دو چیزیں اچھی رہ گئیں۔ ایک ادب نے نوحے اور مرثیے کی صنف سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا۔ دوسرا، سندھ و پنجاب کی ہندو ہم وطنوں اور پختونخوا کے سکھ ہم وطنوں نے عزاداری کی روایت نہیں چھوڑی۔ دبیر و انیس کتابوں اور مجلسوں تک ضرور محدود ہوئے، مگر ہندو شاعر چھنو لال دلگیر کا نمائندہ نوحہ ’گھبرائے گی زینب‘ تو پھر بھی گلی گلی گونجا ہے۔ ایک مستند سیاسی کارکن کو اختلاف جس چیز سے ہوسکتا ہے وہ تو ولایتِ فقیہ سے ہوسکتا ہے۔ عزاداری کی روایت سے اختلاف کے پہلو کب اور کہاں سے نکل آئے؟ کیا نصرت فتح علی خان اور عابدہ پروین کے کام کو سمجھنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینی چاہیے؟ امیر خسرو کے راگوں کو مذہب کا کوئی قرینہ مان کر کسی علمی کلیے پر پرکھنا ہوگا؟ بھگوان پر ایمان رکھنے والا حضرت نظام الدین کے پاس کیوں آتا ہے؟ اس سوال کا جواب کیا صحائف میں تلاش کرنا چاہیے؟ عاشورہ اس خطے کی تاریخ میں کبھی بھی نوگو ایریا نہیں رہا۔ عاشورہ تو گرے ایریا ہے جہاں واعظ اور رند، ملا اور شاعر، پنڈت اور پادری، شاہ اور گدا، محتسب اور طوائف سب کے سب ایک رنگ میں رنگے چلے آتے ہیں اور ایک ہی سبیل کا پانی پیتے ہیں۔ اِس عاشورہ پر ایک خدا لگتی میں کہنا چاہتا تھا مگر منہ نہیں پڑا۔ وہی بات عارف امام نے کہہ دی تو اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔
انہوں نے ایک دھان پان سے سنی بزرگ کی تصویر اپنی دیوارِ گریہ پر ٹانگی ہے، جو سڑک کنارے سبیل لگائے بیٹھے ہیں۔ سبیل کیا ہے، بس ایک پتیلے میں روح افزا کا حسبِ توفیق سا شربت ہے اور پانی کے تین گلاس ہیں۔ غریب الدیار کی اِس سبیل پر لکھنؤ اور امروہہ کی ساری سبیلیں قربان۔ عارف امام نے کہا خبریں یہ ہیں اس بار سنیوں کی نسبتاً بڑی تعداد نےعزاداری کی روایت میں حصہ ڈالا ہے۔ ان کی یہ بات مجھے میرے دل کی بات اس لیے لگی کہ کراچی کے سنی دوستوں نے مجھے اِس بار وٹس ایپ پر تصاویر بھیجی ہیں۔ وہ مرکزی شاہراہوں پر سبیلیں سجا رہے ہیں۔ پیادہ پا گلیوں میں چلے جارہے ہیں۔ حلیم کے لیے سبیل اکٹھی کر رہے ہیں۔ دیگوں کا انتظام کر رہے ہیں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو میں نے پندرہ برس پہلے کسی دھندلے سے منظر میں آخری بار دیکھے تھے۔ ایک ترقی پسند اس منظر سے گھبرا سکتا ہے کہ لوگ واپس روایت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
فتوی ساز کارخانوں میں نفرت انگیز مصنوعات بنتی ہوئی جس نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہوں، اُس کے لیے تو یہ دائروں سے نکل کر جینے کی ایسی کوشش ہے جس کی قیمت اس ملک میں بہت بھاری ہے۔ برادران! واللہ بہت بھاری ہے۔ عزاداری کی رسم اصلی اور جعلی لبرل، سچے اور جھوٹے ملحد یا اچھے اور برے اثنا عشری کی پہچان کا پیمانہ بنانے پر اصرار کیوں ہے؟ بنانا ہی ہے تو پھر ہمارے کہنے پر ایک بار اسے فرقہ واریت کی سطحیں ماپنے کا پیمانہ بناکر دیکھیں۔ سِرا ہاتھ نہ آجائے تو ہمارے ذمے توش پوش!