شامِ غریباں کے بارے میں ہمارے دوست کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو اسی کی زبانی سنیں۔
’میں ایک دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوا۔ مذہب کے بارے میں میری معلومات گاؤں کے مولانا کی معلومات تک محدود تھیں۔ ان کی کُل قابلیت یہ تھی کہ وہ پہلے والے مولانا کے بیٹے تھے جن کی وفات کے بعد وہ خودبخود تعینات ہو گئے تھے۔ محرم کے قریب آتے ہی مختلف قسم کی باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ ان کا مقصد شاید خوف پیدا کرنا تھا۔ یہ بتایا جاتا کہ شیعہ محرم میں جلوس نکالتے ہیں اور سنی بچوں کو اغوا کرکے ان کا خون نیاز میں ڈال دیتے ہیں۔ دلی طور پر میں شیعوں سے خوفزدہ ہو گیا اور دل ہی دل میں سوچا کہ کیسے ظالم لوگ ہیں؟
ایک دن ایک پکے نمازی نے کہا کہ اہل تشیع بڑے عجیب ہیں۔ وہ جب کوئی کھانے کی چیز ہمیں دیتے ہیں تو اس میں تھوک ڈال دیتے ہیں۔ ہمیشہ سچ بولنے اور نماز کی پہلی صف میں کھڑے ہونے والے اس سفید ریش کی بات پر سوال اٹھانا تو خود پر سوال اٹھانے جیسے تھا۔ اس سے میری نفرت کئی سو گنا بڑھ گئی۔
ہائی سکول میں داخل ہوا تو میرے ایک دوست نے محرم کے قریب آتے ہی انتہائی راز داری سے مجھ سے پوچھا: ’تمہیں پتہ ہے کہ شام غریباں کیا ہوتی ہے؟‘ مجھے سرے سے کچھ معلوم نہ تھا۔ میں نے کہا: ’مجھے معلوم نہیں کیا ہوتا ہے آپ بتا دیں۔‘ اس دوست نے کہا: ’ہمارے مولانا صاحب کہہ رہے تھے کہ شامِ غریباں میں شیعہ مرد و خواتین ایک ہال میں جمع ہوتے ہیں اور سب لائٹیں بجھا دی جاتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میڑک کے بعد کالج میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ ہمارا ایک ہم جماعت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ پہلے تو تجسس سے اسے دیکھا بلکہ بغور دیکھا تو وہ نارمل انسان ہی لگا۔ کچھ عرصے بعد ہم تین دوست بیٹھے تھے کہ وہ لڑکا بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور سارے حملے ایک ہی بار شروع کر دیے۔ تم نے حسینؑ کو مارا، تم نیاز میں خون ملاتے ہو، تم جب ہمیں کھانے کی چیزیں دیتے ہو تو اس میں تھوک دیتے ہو۔‘ میں سب کچھ بول چکا تو اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا مگر اس نے فقط اتنا کہا کہ یہ ساری باتیں غلط ہیں اور اٹھ کر چلا گیا۔ میرے دوست نے مجھے کہا کہ تم نے زیادتی کی ہے۔ اس نے کوئی مذہبی بات نہیں کی تھی۔ جب میں نے سوچا تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے تو اس کے پورے خاندان پر تہمت لگائی ہے اور وہ بیچارہ خاموشی سے چلا گیا۔
وقت گزرتا گیا۔ اُس سے واجبی سا تعلق بن گیا۔ محرم کے ایام شروع ہوئے تو ایک دن اس نے مجھ سے کہا: ’کیا آپ حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ شامِ غریباں میں کیا ہوتا ہے؟ تحقیق کے لیے آ جاؤ، اگر تمہاری بات سچی ہوئی تو میں بھی واپس پلٹ جاؤں گا۔‘ مرتا کیا نہ کرتا، اب فرار کی کوئی صورت نہ تھی، لہٰذا میں نے جانے کی ہامی بھر لی۔ طے یہ ہوا کہ ہم دس محرم مغرب کے وقت ان کے گھر پہنچیں گے جہاں سے امام بارگاہ جائیں گے۔
حسب وعدہ جب ہم ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ سب نے سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ایسے لگ رہا ہے جیسے بہت تھکے ہوئے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ دس دنوں سے مجالس چل رہی ہیں، ساتھ جلوس بھی تھے۔ رات کا جلوس دیر سے ختم ہوا اور صبح پھر دس محرم کا جلوس تھا، اس لیے پورا دن اس میں شریک رہے ہیں۔ میں نے غور سے دیکھا تو میرے دوست کے والد کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔
میرا دوست کھانا لے کر آیا اور بتایا کہ دس محرم کی وجہ سے کھانا نہیں پکا یہ نیاز ہے اسی پر گزارا کریں۔ میں نے جیسے ہی نیاز کا نام سنا میرے ذہن میں سب منفی باتیں آ گئیں۔ میرے لیے بہت مشکل تھا کہ میں ایک ایسا کھانا کھاؤں لیکن اس جملے نے میری مشکل آسان کر دی کہ یہ لنگر پڑوس کی اہلِ سنت فیملی نے بھیجا ہے۔ پھر بھی بڑی مشکل سے ایک روٹی ہی کھا سکا۔ لیکن اس دوست کے والد کے مہذب رویے اور دیگر افراد خانہ کے حسن سلوک نے مجھے تھوڑا سا شک میں ڈال دیا۔
غرض رات نو بجے کے قریب ہمیں کہا گیا کہ امام بارگاہ چلتے ہیں، شام غریباں وہیں ہو گی۔ اب میرے ذہن میں وہ ساری باتیں ایک ایک کرکے آنے لگیں جو شام غریباں کے حوالے سے مسجد کے مولوی سے لے کر عام دوست سے سنی ہوئی تھیں۔ سوچ رہا تھا کہ میں یہاں کیوں آیا۔
انہی سوچوں میں گم ہم امام بارگاہ کی گلی میں پہنچ گئے۔ وہاں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سیاہ کپڑوں میں ملبوس امام بارگاہ میں داخل ہو رہی تھیں۔ ہم مرکزی دروازے سے داخل ہوئے جبکہ خواتین الگ دروازے سے امام بارگاہ میں داخل ہوئیں اور دوسری منزل پر پہنچ گئیں۔ دوسری منزل کچھ اس طرح سے تھی کہ وہاں لوہے کی باریک جالی لگی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر اداسی ہے، ہر شخص ہی ایسا لگتا ہے جیسے بہت تھکا ہوا ہے۔
انہی خیالات میں گم تھا کہ امام بارگاہ کی بتیاں بجھائی جانے لگیں۔ اب صورتحال یہ تھی کہ امام بارگاہ کے بڑے ہال میں صرف ایک بتی سٹیج کے اوپر جل رہی تھی۔ اسی دوران ایک ذاکر نمودار ہوئے، جن کے کپڑے سیاہ تھے، ہلکی ہلکی داڑھی تھی، گریبان کھلے تھے اور کفیں چڑھا رکھیں تھیں۔ انہوں نے مائیک پر آتے ہی بلند آواز سے پڑھا:
انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ پڑھنا تھا کہ ہال میں کہرام مچ گیا۔ گویا یہ لوگ پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے اس جملے کو تین بار دہرایا۔ ہر بار کے ساتھ گریہ کی آواز بلند ہو جاتی۔ میں اس صورت حال کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ میں حیرت سے دیکھنے لگا کہ ابھی تک ذاکر نے کچھ کہا ہی نہیں اور یہ اس قدر رو رہے ہیں، مگر پھر خود کو کوسنے لگا کہ عجیب ہوں جوان اور بزرگ تو اپنی جگہ بچوں کے آنسو ان کے گال گیلے کر رہے ہیں۔
اب ذاکر نے بولنا شروع کیا:
’لوگو، تمہارے نبی کا نواسہ شہید کر دیا گیا ہے۔ نبی زادیاں اب دشمن کے نرغے میں ہیں، انہیں قید کیا جا چکا ہے۔‘
ہر جملہ میرے دل میں خنجر کی طرف پیوست ہو رہا تھا اور شور و گریہ مجھے کھینچ رہا تھا۔ اب خواتین کے رونے کی آوازیں بھی نیچے تک آنے لگی تھی۔
ذاکر نے کہہ رہا تھا: ’آج صبح ماؤں کے پاس بیٹے تھے۔ اب شام غریباں ہے۔ اب وہ بیٹے نہیں رہے۔‘
ذاکر پڑھتا رہا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوئے، کب ہچکیاں بندھیں اور کب آواز بلند ہوئی۔ شامِ غریباں ختم ہو چکی تھی اور میں خود کو قافلہ حسینی کا شریک سمجھ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میری فکر کی بھی شامِ غریباں تھی، میرے دماغ میں بڑے مقدس بت ٹوٹ چکے تھے، جو قرآن کی تلاوت کرتے تھے، جو پہلی صف میں نماز پڑھتے تھے۔ ان لوگوں نے کیا ستم ڈھائے تھے۔ میرے نبی کے خاندان کے لیے رونے والوں کے بارے میں اس قدر تہمتیں؟ سچ پوچھیں تو اب میرا ذہن ان کی بتائی ہر بات کو مشکوک سمجھ رہا تھا۔
اتنے میں میرا شیعہ دوست آ گیا اور روتے ہوئے میرے گلے لگا اور کہا: ’یہ ہوتی ہے شام غریباں، یعنی غریبوں کی شام۔ خاندان مصطفیٰ کے کٹ جانے کے بعد ان کے خاندان کی بے کسی کی شام۔ خاندانِ پیغمبر کے صحرا میں بے یارومددگار ہو جانے کی شام۔ ایسی شام جس پر اہلِ ایمان کی آنکھیں پانی اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہی شام ہے جس میں روایت امِ سلمیٰ کے مطابق خاتم الانبیا روتے تھے۔ رونے کی شام، آہ و بکا کی شام اور یہی شامِ غریباں ہے۔‘
میں نے اپنے دوست سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ اس نے کہا: ’میں تم سے ناراض ہوا ہی نہیں تھا کیونکہ ہمیں معلوم ہے یزیدیت موجود ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اس دور میں بھی اتنا غلط پروپیگینڈا اتنا کامیاب ہو سکتا ہے؟‘