حیدرآباد دکن جو بریانی کے علاوہ خوشبوؤں کے لیے بھی مشہور ہے

انڈیا کے شہر حیدرآباد دکن میں مختلف اقسام کے پھول اور صندل کی لکڑی کے تیل سے تیار کردہ عطر کی کافی مانگ ہے۔

نوابوں کا شہر کہلایا جانے والا انڈین شہر حیدرآباد دکن تاریخی عمارتوں اور عظیم الشان محلات کے ساتھ ساتھ اپنے عطر اور خوشبوؤں کے لیے بھی مشہور ہے۔

رمضان کے مہینے میں اس شہر میں عطر اور دیگر خوشبوؤں کے استعمال اور خریداری میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہاں مختلف اقسام کے پھول اور صندل کی لکڑی کے تیل سے تیار کردہ عطر کی کافی مانگ رہتی ہے۔

سعید نور عارف علی گذشتہ 30 برس سے اس شہر کی تاریخی معظم جاہی مارکیٹ میں عطر کی دکان چلا رہے ہیں۔ وہ خود عطر تیار کرتے ہیں اور انڈیا کی مختلف ریاستوں میں بھیجتے ہیں۔

ان کی دکان میں تقریباً 500 سے زیادہ اقسام کے عطر موجود ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عارف علی نے بتایا: ’ہمیں عطر بنانے کا کام وراثت میں ملا ہے۔ ہمارے دادا عطر فروخت کیا کرتے تھے۔ ان کے گزر جانے کے بعد والد اور اب ہم اس کاروبار کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے خاندانی پیشے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’رمضان کے مقدس مہینے میں عطر کے استعمال کا ایک مذہبی زاویہ بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استعمال کرتے تھے۔ یہاں نہ صرف مسلمان بلکہ بہت سے ہندو بھی ہیں، جو اس نوابوں کے شہر میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، وہ باقاعدگی سے عطر کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں اپنی روایت پر بہت فخر ہے۔‘

عارف علی کے بقول: ’ماہ مقدس رمضان المبارک میں جہاں مسلمان عبادات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، وہیں عطر کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔ عطر کی خوشبو سے پورا شہر مہک اٹھتا ہے۔ ہر کوئی عطر لگانا پسند کرتا ہے۔ اس مقدس مہینے کے دوران جب بھی پرانے شہر سے گزریں تو ممکن ہی نہیں کہ آپ کو عطر کی خوشبو سونگھنے کو نہ ملے۔‘

عبدالقدوس نامی ایک مقامی نوجوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نظام کے آبائی شہر حیدرآباد دکن میں عطر رمضان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ہر کوئی باڈی پرفیوم کے بجائے عطر لگانے کو ترجیح دیتا ہے کیوں کہ ان میں الکوحل نہیں ہوتا اور یہ قدرتی اجزا جیسے چندن اور گلاب کی پنکھڑیوں سے بنی ہوتی ہیں۔ خوشبو لگانا سنت نبوی میں شامل ہے۔‘

عبدالقدوس بتاتے ہیں کہ لباس کو معطر رکھنے کے علاوہ مساجد کو بھی مہکانے کے لیے عطر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عطر کے استعمال کے ساتھ ساتھ لوبان کا دھواں بھی دیا جاتا ہے۔

’دوست احباب کے ساتھ مل کر جمعۃ الوداع یا عید کے دن عطر کی بوتل لے کر مسجد جاتے ہیں اور وہاں موجود نمازیوں کو عطر لگاتے ہیں۔ وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور ہمیں بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ یہاں کی تہذیب ہے کہ جب عید کے دن کوئی ملنے آتا ہے تو شیر خورمہ کھلانے کے بعد ان کے سامنے ایک باکس رکھا جاتا ہے جس میں سونف اور عطر کی بوتل ہوتی ہے، تو باکس سے عطر کی بوتل نکال کر لگاتے ہیں۔‘

روایتی طور پر بادشاہ اپنے مہمانوں کی رخصتی کے وقت انہیں عطر پیش کرتے تھے۔ وہ عام طور پر خوبصورتی سے تراشے ہوئے عطر دانوں (شیشے کے برتن) میں بھرے ہوتے تھے۔

گلاب عطر، جاسمین، زعفران، گل حنا، گیندا، شمامہ، عنبر، بخور اور لوبان وہ مشہور عطر ہیں جنہیں مغلوں اور نظاموں نے ترجیح دی تھی۔

آئین اکبری کے مصنف علامہ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ مغل بادشاہ روزانہ اگربتی جلاتے اور اس کے بعد عطر کا استعمال کرتے تھے۔ ان کا غسل اگربتی اور عطر کے بغیر ادھورا رہتا تھا۔ ان کے ہاں ایک مشہور عطر ہوا کرتا تھا جسے شمال مشرقی ریاست آسام میں تیار کر کے منگوایا جاتا تھا۔

سعید نور عارف علی کہتے ہیں کہ عطر کا استعمال عام طور پر انسانی جسم پر ان کے اثرات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

گرم عطر جیسے کہ کستوری، عنبر اور کیسر (زعفران) سردیوں میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ ٹھنڈے عطر جیسے شمامہ، گلاب، جیسمین، خس، کیوڑا اور موگرہ گرمیوں میں استعمال ہوتے ہیں اور جسم پر ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا