فیکٹ چیک: کیا رویت ہلال کمیٹی پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں؟

ایکس پر ایک ٹرینڈ میں الزامات عائد کیے گئے کہ رویت ہلال کمیٹی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

11 مارچ، 2024 کو پشاور میں صوبائی رویت ہلال کمیٹی رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے جمع ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں عید الفطر کا چاند دیکھنے کا معاملہ اکثر و بیشتر متنازع ہی رہتا ہے۔ 

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے علاوہ پشاور کی قاسم علی خان مسجد میں نجی رویت ہلال کمیٹی رویت کا علیحدہ اعلان کرتی ہے جس سے پاکستان کی تاریخ میں اکثر دو اور کبھی کبھی تین عیدیں بھی منائی گئیں۔
 
اس تنازعے کو 2019 میں سابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے قمری کیلینڈر پر مبنی ایک ایپ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قمری کیلینڈر بنانے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی قائم کی تھی جس میں سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل تھے۔ 
 
تاہم سابق چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان اور مفتی پوپلزئی نے اس طریقے کو تسلیم نہیں کیا اور یوں روایتی انداز سے چاند دیکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔
 
وفاقی حکومت نے دو عیدوں کے تنازعے کو حل کرنے کی خاطر 2021 میں نجی رویت ہلال کمیٹیوں پر پابندی عائد کر دی، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔
 
گذشتہ دنوں ایکس (ٹوئٹر) پر ایک ٹرینڈ چلا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے خرچے کروڑوں روپے ہیں جس کی وجہ مبینہ طور پر اس کے تین ہزار سے زائد ملازمین ہیں۔ تاہم یہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے اور اس کی وجہ سے عوامی پیسہ ضائع ہوتا ہے۔
 
انڈپینڈنٹ اردو نے ایکس پر کیے گئے رویت ہلال کمیٹی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے دعوؤں کی حقیقت جاننے کے لیے ترجمان وزارت مذہبی امور عمر بٹ سے رابطہ کیا۔
 
انہوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان کی قائم کردہ رویت ہلال کمیٹی کا مقصد ہر ماہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرنا ہے۔ اس کمیٹی کے موجودہ چیئرمین عبدالخبیر آزاد ہیں، صوبائی اور مرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ 
 
ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی میں محکمہ موسمیات، نیوی اور سپارکو کے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے ہر اجلاس میں موجود ہوتے ہیں اور پھر متفقہ رائے سے چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند کی رویت یا عدم رویت کا اعلان کرتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے واضح کیا کہ رویت ہلال سے متعلق جو فیصلہ اور اعلان کیا جاتا ہے اس پر ارکان کے دستخط بھی ہوتے ہیں۔

ترجمان وزارت مذہبی امور نے مزید بتایا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے 21 مرکزی ارکان ہیں جن میں اسلامی سکالرز، خلائی تحقیقی ادارہ (سپارکو)، وزارت سائنس اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے عہدے دار شامل ہیں۔ 
 
’سال میں چار بار بڑے اجلاس رمضان، شوال، ذی الحجہ اور محرم کے ہوتے ہیں۔ کمیٹی کے ممبران اس کام کی باقاعدہ نہ تنخواہ لیتے ہیں اور نہ ہی انہیں مراعات ملتی ہیں۔ البتہ کرائے یا ٹی اے ڈی اے کی مد میں جو اعزازیہ لینا چاہیں انہیں مل جاتا ہے جو بہت زیادہ نہیں ہوتا۔‘
 
عمر بٹ کے مطابق  کمیٹی کا مکمل بجٹ 35 سے 50 لاکھ روپے تک رکھا جاتا ہے جو پورا خرچ بھی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کمیٹی پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کو پروپیگنڈا قرار دیا۔
 
چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی عبدالخبیر آزاد کے مطابق سال میں صرف چار مرکزی اجلاسوں میں گاڑی یا جہاز کا اکانومی ٹکٹ اور عام سے ہوٹل میں ایک دن کی رہائش ملتی ہے، اس کے علاوہ کمیٹی کے ارکان کو کچھ نہیں دیا جاتا۔
 
سابق وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے اپنے دور حکومت میں سینیٹ میں ایک سوال پر تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں بتایا گیا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سال میں 12 اجلاس ہوتے ہیں جن میں مرکزی اجلاس صرف چار ہیں۔ 
 
’کمیٹی کے لیے 2018-2019 میں 34 لاکھ 71 ہزار روپے سالانہ بجٹ رکھا گیا جس میں سے 31لاکھ 45 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ممبران کو گریڈ 20 کے سرکاری افسر کے برابر ٹی اے ڈی اے کی قانونی طور پر منظوری ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت