قدیم زمانے میں یہ رواج تھا کہ جنگ میں فاتح لشکر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ شکست کھانے والوں کی دولت اور مال کو بطور غنیمت قبضہ کر لیں، کیونکہ عورتوں کو بھی ملکیت سمجھا جاتا تھا اس لیے یہ بھی مال غنیمت کا حصہ ہوتی تھیں۔
دستور یہ تھا کہ مردوں کو قتل کر دیا جائے تاکہ اُن کی جانب سے جنگ کا کوئی خطرہ نہ رہے۔ عورتوں کو گرفتار کرکے یا تو فوجیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اور یا اُنہیں منڈیوں میں بطور کنیز اور غلام فروخت کیا جاتا تھا۔
ٹرائے کی جنگ کے دوران جب یونانی کمانڈر ایگامیمنان نے اکیلیز کی کنیز کو اُس سے چھین لیا تو اس نے غصے میں آ کر جنگ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ ٹرائے کی جنگ یونانی ڈراما نگاروں کے لیے اہم موضوع بن گئی تھی۔ یوری پیڈیز نے ٹروجن عورتوں کے نام سے ڈراما لکھا جس میں شکست کھانے کے بعد ان عورتوں کو لونڈی بنا لیا گیا تھا اور وہ سب اس صدمے میں تھیں کہ اب اُن کے مالک وہ فوجی ہونے والے ہیں جنہوں نے ان کے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کیا ہے۔
یہ ایک ایسا المیہ تھا کہ جس سے یہ عورتیں دوچار ہوئی تھیں۔ لیکن یہی صورتحال اُن عورتوں کو بھی رہی ہو گی جنہیں آزادی سے محروم کر کے غلام بنا کر بازاروں میں فروخت کیا گیا ہو گا اور جو اپنے گھربار اور رشتے داروں سے محروم ہو کر اجنبی ماحول میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونان کا شہر ایتھنز اپنی جمہوریت، آزادی اور قانون کی وجہ سے مشہور تھا لیکن اس معاشرے میں نہ تو عورتوں کو ووٹ دینے کی اجازت تھی نہ گھر سے باہر نکلنے کی نہ محفلوں میں شریک ہونے کی اور نہ غیر مردوں سے بات چیت کرنے کی۔ لہٰذا اس صورتحال کی وجہ سے ایتھنز میں غلام عورتوں کی اہمیت ہو گئی تھی اور باہر کے تقریباً تمام کام غلام عورتوں کے سپرد کر دیے گئے تھے۔ ان میں پانی لانا، بازار سے چیزوں کی خریداری کرنا، کھانا پکانا، کھانا کھلانا، گھر کی صفائی، بچوں کی دیکھ بھال کرنا اور اون سے کپڑے وغیرہ تیار کرنا وغیرہ شامل تھے۔
اس کے علاوہ غلام عورتوں کی قدر میں اس وقت اور اضافہ ہوا جب امرا کی عورتوں نے اپنے کام کاج کے سلسلے میں اُن پر زیادہ انحصار شروع کر دیا۔ کیونکہ غلام عورتیں امرا کی خواتین کی جگہ مریض کی دیکھ بھال کرتیں، کھانا پکاتیں اورتمام گھر کی نگہداشت کرتیں۔ غلام عورتیں مردوں کے لیے بھی اُتنی ہی دلچسپی کا باعث تھیں مثلاً وہ اپنے مالکوں کی جنسی خواہشات کو پورا کرتیں اور اُن کے لیے تفریح بھی فراہم کرتیں جیسے رقص، موسیقی اور شاعری وغیرہ۔
اس کے علاوہ اگر غلام عورت اور آقا سے کوئی اولاد پیدا ہو جاتی تو اُس کو ضائع کر دیا جاتا تھا کیونکہ اُس کو بچے پالنے کی اجازت نہیں تھی۔
یونان کے امیر گھرانوں میں باقاعدہ شادی کا رواج تھا جبکہ غلام عورت اور مرد اس سہولت سے محروم تھے۔ چونکہ غلام عورتیں امرا کی خواتین کے تمام کام سر انجام دیتی تھیں اس لیے بعض امرا خواتین کے غلام عورتوں سے قریبی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ کیونکہ گھر سے باہر کے حالات و واقعات کی خبر کا واحد ذریعہ یہ غلام عورتیں ہی ہوا کرتی تھیں۔
مذہبی معاملات میں غلام عورتیں قدرے آزاد تھیں اور مذہبی رسومات ادا کرنے میں اُن کو کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔
رومی سلطنت میں جہاں جنگوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں مرد غلام آئے وہیں عورتوں کو بھی کنیزیں بنا کر لایا گیا۔ ان کو یا تو بازار سے خریدا جاتا تھا یا جنگ میں کامیابی کی صورت میں بطور انعام ملا کرتی تھیں۔ امرا کے گھروں میں مرد غلاموں کے ساتھ کنیزوں کی بھی بڑی تعداد ہوا کرتی تھی۔
ابتدا میں انہیں گھریلو کام کاج کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ یہ گھریلو انتظامات اچھی طرح سنبھال سکیں۔ ایک غلام عورت صبح صبح بازار جا کر کھانے کا سامان خرید کر لاتی تھی۔ پھر یہ گھر کے دیگر کاموں میں مصروف ہو جاتی تھی۔ امرا کے گھروں میں یہ ضیافت کا اہتمام بھی کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ روم میں مالک مرد غلام کو تو آزاد کر دیتا تھا مگر غلام عورت کو نہیں۔ یہ غلام عورتیں آہستہ آہستہ اُس کے گھر کا حصہ بن جاتی تھیں اور بعض صورتوں میں اُن کی شادی غلام مردوں سے ہی ہوتی تھی اور اُن سے ہونے والے بچے رومی مالک کے ہی ہوتے تھے۔
یہودیوں کی مقدس کتاب عہدنامہ عتیق میں احکامات دیے گئے ہیں کہ جب وہ جنگ میں دشمنوں کو شکست دیں تو اُن کے تمام مردوں کو قتل کر دیں، ان کے شہروں کو مسمار کر دیں اور اُن کی عورتوں کو کنیز بنا لیں۔ اگر یہ عورتیں اُن کی اطاعت نہ کریں اور مزاحمت کریں تو اس صورت میں اُنہیں تنہائی میں قید کر کے کھانا پینا بند کر دیں یہاں تک کہ وہ اُن کا حکم ماننے پر مجبور ہو جائیں۔
جب مسلمانوں نے شام ایران اور مصر کو فتح کیا تو مسلمان معاشرے میں بھی غلاموں کے ساتھ کنیزوں کی بڑی تعداد آ گئی۔ عباسی خلفا کے حرم میں غیرعرب کنیزیں اُن کے لیے جنسی تسکین کا باعث تھیں کیونکہ بازاروں میں بھی یہ سستی قیمت پر مل جاتی تھیں اس لیے متوسط طبقے کے لوگ یہ کنیزیں رکھتے تھے۔ اگرچہ کنیزوں کی اولاد کو وراثت میں تو حصہ نہیں ملتا تھا مگر مالک اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔ عباسی خلیفہ مامون بھی ایک کنیز کی اولاد تھا جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اس مرتبے تک پہنچا۔
عباسی دور میں جب آلِ بویہ خاندان اقتدار میں آئے جو 934 سے 945 تک اقتدار میں رہے تو اس کے ایک حکمران کو اپنی کنیز سے اس قدر محبت ہوئی کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اسے اُس نے اپنی کمزوری سمجھا اور کنیز کو قتل کروا دیا تاکہ اُس کی محبت سے آزاد ہو جائے۔
سلطنت عثمانیہ میں گرفتار ہو کر آنے والی کنیزوں کا تعلق مشرقی یورپ کے ملکوں سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ انقرہ میں جب سلطان یلدرم کو تیمور لنگ کے ہاتھوں شکست ہوئی، وہ اور اُس کی بیوی قید ہوئے تو اس کے بعد سے عثمانی سلطان شادی نہیں کرتے تھے اور کنیزوں سے تعلقات رکھتے تھے۔ حرم میں اُس کنیز کی عزت بڑھ جاتی تھی جس کا بیٹا حکمران ہو جاتا تھا اور اُسے مادرِ سلطان کا درجہ مل جاتا تھا۔
مسلمان معاشرے میں بردہ فروش عورتوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ ہندوستان کے ایک سیاح یوسف کمبل پوش نے 1838 میں یورپ اور مشرق وسطیٰ کا سفر کیا تھا۔ جب وہ مصر میں تھے تو انہوں نے ایک بردہ فروش تاجر کے پاس فروخت ہونے والی لڑکیوں کو دیکھا۔ 17 اور 18 سال کی یہ لڑکیاں جو تعداد میں تقریباً 20 تھیں ایک کمرے میں بند خوفزدہ اور سہمی ہوئی بیٹھی تھیں۔ یہ تاجر انہیں مالدار مصریوں کو فروخت کرنے لایا تھا۔
ہندوستان میں بھی عورتوں کی خرید و فروخت کا کام جاری رہا کبھی کبھی ماں باپ غربت سے تنگ آ کر اپنی لڑکیوں کو بیچ ڈالتے تھے۔ اگر وہ خوبصورت ہوتیں تو تاجر اُنہیں حکمرانوں یا ریاست کے امیروں کو مہنگے داموں فروخت کر دیتے۔
لکھنو کی آخری ملکہ حضرت محل کو بھی اُس کے ماں باپ نے فروخت کر دیا تھا جسے تاجروں نے واجد علی شاہ کے حرم کے لیے بیچ ڈالا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں حضرت محل نے شہرت پائی اور انگریز کے خلاف کئی لڑائیوں میں حصہ لیا۔ شکست کے بعد یہ نیپال چلی گئی اور کٹھمنڈو میں اس کی وفات ہوئی۔
تاریخ میں نہ صرف آزاد عورتیں بلکہ غلام عورتیں بھی اذیت اور عذاب سے گزریں لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پدرسری کے مضبوط نظام کو انہوں نے نہ صرف چیلنج کیا بلکہ تحریک نسواں کے ذریعے اپنے حقوق کی جنگ کی جو اب بھی جاری ہے۔