مشرقی ایشیا کے جزیرہ نما ملک تائیوان میں بدھ کو آنے والا 7.4 شدت کا زلزلہ گذشتہ 25 سال میں اس ملک کا شدید ترین زلزلہ تھا جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 10 افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
گو کہ انسانیت کے لیے اس زلزلے میں ہونے والی اموات کی کم تعداد خوش خبری اور خوش قسمتی کی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس سے کم شدت کے زلزلے بھی کئی گناہ زیادہ تباہی لاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس تباہی کو روکنے کے لیے تائیوان نے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں؟
امریکی جریدے این بی سی نیوز کے مطابق بدھ کو صبح سات بج کر 58 منٹ پر آنے والے اس زلزلے میں اب تک درجنوں افراد لاپتہ بھی ہو چکے ہیں جن کی تلاش کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
اماراتی جریدے دی نیشنل کے مطابق گذشتہ سال فروری میں شام اور ترکی میں آنے والے تین زلزلوں میں اموات کی تعداد 58 ہزار سے زیادہ تھی۔
7.8، 7.5، اور 6.4 شدت کے ان تین زلزلوں کے بعد صرف ترکی میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں کی تعداد 37 ہزار سے زیادہ تھی جبکہ دو لاکھ سے زیادہ عمارتیں جزوی طور پر بھی متاثر ہوئیں۔
ماہرین کے مطابق زلزلوں کے دوران متاثر ہونے والی عمارتوں کا طرز تعمیر اور انہیں کس طرح سے تعمیر کیا گیا زلزلے کے نتائج متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تائیوان، امریکی ریاست کیلی فورنیا، جاپان اور اٹلی ان چند ریاستوں میں شامل ہیں جن کی بلڈنگ کوڈز اس طرح سے طے کیے گئے ہیں جو زلزلوں کا مقابلہ کر سکیں۔
’عمارتیں لوگوں کو قتل کرتی ہیں زلزلے نہیں‘
یونیورسٹی آف برسٹل میں ایروسپیس اینڈ ڈیزائن انجنیئرنگ کی سینیئر لیکچرر ڈاکٹر رفائیل کہتی ہیں کہ ’عمارتیں لوگوں کو قتل کرتی ہیں، زلزلے نہیں۔‘
ان کا کا کہنا ہے کہ ’جب آپ ایسے علاقے میں ہوں جہاں بہت زیادہ زلزلے آتے ہوں تو آپ کو بلڈنگ کوڈز طے کرنے چاہییں۔ اگر آپ ان پر عمل کریں گے تو آپ کی عمارتیں گرنے کا امکان کم ہو گا۔‘
ان کے مطابق ترکی اور تائیوان دونوں نے ہی بہت اچھے بلڈنگ کوڈز طے کر رکھے ہیں لیکن ترکی میں زیادہ تر عمارتیں ان بلڈنگ کوڈز کے لاگو کیے جانے سے پہلے کی تعمیر کردہ ہیں۔‘
اس زلزلے کے دوران سب سے دلچسپ بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ اس دوران تائیوان میں واقع تائی پے 101 سینٹر جو ایک زمانے میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت تھی بالکل محفوظ رہی۔
تائیوان کا کاروباری مرکز قرار دی جانے والی یہ عمارت سال 2004 سے 2010 تک برج خلیفہ کی تعمیر تک دنیا کی سب سے بلند عمارت رہی ہے۔
A 7.5 earthquake hit Taiwan yesterday and footage shows the Taipei 101 skyscraper shaking.
— Trung Phan (@TrungTPhan) April 3, 2024
The 1,670ft building famously has a 703 ton steel ball hanging between the 88th and 92nd floors, which acts as a “dampener system” to reduce building sway by 30-40% during earthquakes… pic.twitter.com/x1vJBoKX4V
اس عمارت کی بلندی 508 میٹر یعنی تقریباً 1670 فٹ ہے۔
ایک صارف ترنگ فان کی پوسٹ کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ اس عمارت کے 88ویں اور 92ویں منزل کے درمیان موجود ایک پینڈولم یا ہینگنگ بال کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی تعمیر پر لگ بگ 40 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی۔
بلڈنگ کوڈز کیا ہیں اس میں کیا کیا شامل ہوتا ہے؟
بلڈنگ کوڈز ان قواعد و ضوابط کو کہا جاتا ہے جو انجنیئرنگ اور سائنسی تجربات کی بنیاد پر کسی بھی علاقے میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کی تعمیر کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
یہ ہر ملک اور ہر علاقے کے حساب سے الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن ان میں چند مشترکات ہیں جو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد نئے عمارتی کوڈز متعارف کروائے گئے تھے۔
کمزور بنیادیں
ماہرین کے مطابق کسی بھی مقام پر عمارت کو تعمیر کرنے سے قبل یہ اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس عمارت کی سب سے نچلی منزل کی بنیادیں کتنی گہری اور مضبوط ہوں گی اور ان کی تعمیر میں کس نوعیت کا مواد استعمال کیا جائے گا۔
جاپانی پروفیسر ساودردیس کہتے ہیں کہ ’کئی عمارتیں بہت گنجان آباد اور تنگ جگہوں پر ہوتی ہیں جن کے درمیان وقفہ کم ہوتا ہے۔ تائیوان میں زلزلے کے بعد کئی عمارتیں ایک طرف جھک گئی ہیں جس کی وجہ ان عمارتوں کی پہلی منزل یا گراؤنڈ فلور کی کمزور طرز تعمیر تھی۔‘
ان کے مطابق ’ان عمارتوں کی بالائی منزلیں تقریباً محفوظ رہی ہیں لیکن گراؤنڈ فلور کا دب جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی تعمیر میں خلا زیادہ رکھا گیا تھا یا ان کی دیواریں شیشیے کی تھیں۔‘
وارننگ سسٹم
پروفیسر ساودردیس مزید کہتے ہیں کہ عمارتوں کے علاوہ ان میں رہنے والے افراد کا رویہ اور وہاں نصب وارننگ سسٹم بھی اس بات میں اہم کردار ادا کرتا ہے کہ ایک زلزلے کے دوران کتنی جانیں جاتی ہیں۔
ان کے مطابق ’جاپان کے پاس سٹیٹ آف دی آرٹ سسٹم موجود ہے جو زلزلوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان کی وارننگ عوام کے لیے جاری کرتا ہے۔
’ایک ایسا نظام اور ایسی آبادی جو جانتی ہے کہ اسے زلزلے کے دوران کیا کرنا ہے زلزلے کے نتائج کو بڑے پیمانے پر بدل سکتی ہے۔‘
یہاں ہم اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ جاپان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں سکولوں میں زلزلے کے حوالے سے مشقیں کروائی جاتی ہیں تاکہ اگر زلزلہ آئے تو طالب علموں کو معلوم ہو کہ انہیں کس طرح میزوں کے نیچے چھپ کر، اپنے سروں کو محفوظ رکھنا ہے۔
نیوزی لینڈ میں بھی دو سال قبل زلزلے سے مقابلے کے لیے کرائسٹ چرچ شہر میں سینکڑوں عمارتوں کو زمین بوس کر کے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
ایسا نیوزی لینڈ میں سال 2011 میں آنے والے زلزلے کے بعد کیا گیا جس میں 185 افراد جان سے گئے تھے۔
امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق تائیوان میں بدھ کو آنے والے زلزلے کے بعد جمعرات تک تین سو سے زیادہ آفٹر شاکس آ چکے ہیں۔
اس زلزلے میں شہر ہوالین کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کی دو عمارتیں بھی کچھ نقصان اٹھانے کے بعد گرنے سے محفوظ رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں سے ایک عمارت جسے سرخ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے اس کا نام یورانوس ہے جس کے نچلی منزلیں مکمل طور پر منہدم ہو چکی ہیں۔
یہ عمارت اس بات کی مثال ہے کہ تائیوان نے خود کو زلزلے سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار کر رکھا تھا۔
تائیوان کے گلوبل ریزیلینس انسٹی ٹیوٹ نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈینیل الڈرچ کہتے ہیں کہ ’اسی شدت کے زلزلے دیگر ممالک میں کئی گنا زیادہ اموات کا باعث بن چکے ہیں۔ لیکن تائیوان میں ہونے والی اموات سے بھی زیادہ تر عمارتیں گرنے کے بجائے پتھر لگنے سے واقع ہوئی ہیں۔‘
تائیوان میں بدھ کو زلزلے کے بعد جمعرات تک ریل سروس بحال ہو چکی ہے۔
تائیوان میں زلزلے سے مقابلے کے لیے قواعد و ضوابط 1974 سے لاگو ہیں لیکن یہاں 1999 میں آنے والے چی چی کوئیک میں 2400 سے زیادہ اموات ہوئیں اور دس ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ جس کے بعد بلڈنگ کوڈز پر سختی سے عمل کروانے میں مزید شدت آئی۔
بدھ کے زلزلے کے بعد چین نے بھی تائیوان کی مدد کے لیے پیش کش کی ہے لیکن تائیوان نے چینی امداد کی پیش کش کو مسترد کر دیا۔
ٹائمز میگزین کے مطابق تائیوان کی مین لینڈ کونسل نے چینی سٹیٹ کونسل کی جانب سے امداد کی پیش کش پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم چین کے تشویش کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اس زلزلے کے حوالے سے چین کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر نے تائیوان میں آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے کم نقصان کو تائیوانی انجنیئرنگ اور زلزلوں سے مقابلے کے لیے اس کی تیاری کا ثمر قرار دیا ہے۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں دی نیشنل، نیویارک ٹائمز، ٹائمز میگزین اور ولس سینٹر کی رپورٹس سے مدد لی گئی ہے۔