تھر کول کے لیے دیے گئے متبادل ماڈل ویلیج کے گھر اب قابل رہائش نہیں: رہائشی

ماڈل ویلیج کے باسیوں کے مطابق سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی ان کے گھروں کی مرمت نہیں کرا رہی اور ان کو آبائی گاؤں سے نئی جگہ منتقلی سے قبل کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے گئے۔

ماڈل ویلیج کے باسیوں کے مطابق سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی ان کے گھروں کی مرمت نہیں کرا رہی (نبی بخش درس)

سندھ کے علاقے تھر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے تھر کول بلاک ٹو میں خالی کرائے گئے گاؤں کے باسیوں کے لیے ماڈل ویلیج تو بنا دیے گئے تھے تاہم ان کے رہائشیوں کا کہنا ہے یہ گھر کچھ ہی عرصے میں زبوں حالی کا شکار ہو گئے اور ان میں رہائش ممکن نہیں رہی۔

ماڈل ویلیج کے باسیوں کے مطابق سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی ان کے گھروں کی مرمت نہیں کرا رہی اور ان کو آبائی گاؤں سے نئی جگہ منتقلی سے قبل کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے گئے۔

سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی  نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تھر کول بلاک ٹو میں آنے والے گاؤں کے رہائشیوں کو ایک معاہدے کے تحت نئی جگہ منتقل کیا گیا ہے اور اس معاہدے میں کیے گئے تمام مطالبات کو پورا کیا گیا ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بنائے گئے گھروں کی مرمت معاہدے کے تحت کمپنی کی ذمہ داری نہیں بلکہ مرمت کا کام ان گھروں میں مقیم افراد کا ہے۔

72 سالہ خاتون تھانو بھیل تھر میں واقع کوئلے کے ذخائر کے مرکزی شہر اسلام کوٹ سے تقریباً 16 کلومیٹر مشرق کی جانب بنائے گئے ’نیو سنہری ماڈل ویلیج‘ کی رہائشی ہیں۔

ان کی پیدائش ان کے پرانے گاؤں سنہری درس میں ہوئی تھی، جہاں اب 135 گہری کوئلے کی کان ہے۔ جہاں سے کوئلہ نکال کر بجلی بنائی جارہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تھانو بھیل نے کہا کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی پرانے گاؤں سہنری درس میں گزاری، جہاں ان کا خاندان سینکڑوں سالوں سے آباد تھا۔

بقول تھانو بھیل: ’ہمارے کھیت تھے، مویشیوں کے چرنے کے لیے ایک بڑا میدان تھا جہاں درخت اور مویشیوں کا چارا وافر مقدار میں مفت ملتا تھا۔ جسے مقامی زبان میں گئوچر (گائے چرانے کی جگہ) کہا جاتا ہے۔ ہمیں وہاں کھانا پکانے کے لیے مفت لکڑیاں مل جاتی تھیں۔

’اس کے علاوہ درختوں اور میدانوں میں قدرتی طور پر اگنے والی سبزیاں اور پھل مل جاتے تھے۔ ہم کھیتی باڑی اور گلہ بانی کر کے خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ پانی آسانی سے مل جاتا تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ کوئلہ نکالا ہے۔ جس کے لیے آپ لوگوں کو نئی جگہ منتقل کرکے تمام سہولیات دی جائیں گے۔‘

تھانو بھیل نے کہا کہ مگر یہاں بنائے گئے گھر زبوں حال ہوکر تباہ ہو گئے ہیں۔ کمپنی مرمت نہیں کرا رہی ہے۔ اس نئی بستی کے اکثر لوگ گھروں سے باہر رہنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ اندر رہنے سے گھر گرنے کا ڈر لگا رہتا ہے۔

’ہمیں اپنے آبائی گاؤں سے کوئلہ نکالنے کے لیے اٹھایا گیا اور اس کوئلے سے بجلی بنائی گی مگر ہمیں اس نئی جگہ پر مفت بجلی دینے کے بجائے بل کی مد میں پیسے لیے جاتے ہیں۔ کسی مہینے دو ہزار روپے کا بل آتا ہے تو کبھی تین ہزار روپے کا بل آتا ہے۔‘

نبی بخش درس ماڈل ویلیج میں سماجی کارکن ہیں۔ ان کے مطابق تھر میں موجود کوئلے کی کھدائی کا کام 2009 سے شروع ہوا اور 2014 میں ان کے گاؤں سنہری درس کا سروے کیا گیا۔

اس سروے کے مطابق یہاں گاؤں میں 172 خاندان تھے۔ سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی نے گاؤں کے 172 خاندانوں کو ماڈل ویلیج میں گھر بنا کر دیے۔ مگر 2014 سے 2019 کے دوران گاؤں کے 30 نوجوانوں نے شادیاں کی، مگر ان کے لیے گھر مختص نہیں کیے گئے۔

نبی بخش درس کے مطابق: ’اس کالونی کا صرف نام ماڈل ہے مگر اس میں بنائے گئے گھر چند سالوں میں زبوں حال ہوگئے ہیں۔ کمپنی والے گھروں کی مرمت کے لیے راضی نہیں۔ اس کے علاوہ فی گھر سالانہ ایک لاکھ روپے معاوضہ دیا جارہا ہے۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ ہر سال معاوضے کی رقم بڑھائی جائے گی۔ مگر تاحال اس رقم میں اضافہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کمپنی اور گاؤں کے لوگوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت اس منصوبے کی رائلٹی کا 10 فیصد تھرپارکر ضلعے کو ملے گا اور اس 10 فیصد کا تین فیصد گاؤں سنہری کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے گا، مگر تاحال رائلٹی کی رقم بھی جاری نہیں کی جارہی۔‘

سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انڈپینڈنٹ اردو کو لکھت میں دیے گئے جوابات میں سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی کے ترجمان نے کہا سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے 2018 میں نیوسنہری درس ماڈل ولیج  کے 172 گھر کی تعمیر مقامی ٹھیکیداروں سے کرائی۔

’سرکار کے ری سیٹلمنٹ پالیسی فریم ورک 2015 کے تحت رہائشیوں کو نیو سنہری ماڈل ولیج منتقل کرایا۔ ری سیٹلمنٹ منصوبہ ملکی سطح  کا ایک شاندار منصوبہ ہے جس کی ملکی سطح پر پذیرائی ہوئی ہے، متبادل وليج ميں گھروں کی مرمت کرانے کی ذمہ داری وہاں رہائش پزیر افراد اور مکینوں کی ہے، کمپنی کی نہیں۔‘

ہر سال ایک لاکھ روپے فی گھرانہ دینے والے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا سندھ حکومت کے تعاون سے ہر گھر کو  سالانہ ایک لاکھ روپے رقم باقاعدگی کے ساتھ دی جاتی ہے۔

گئوچر (گائے چرنے کا مقام) سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی گاؤں سے ملحقہ  ساڑھے آٹھ سو ایکڑ زمین گئوچر کے لیے مختص کردی گئی ہے۔

ترجمان سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی کے مطابق: ’سنہری درس گاؤں کی ری سیٹلمنٹ کے معاہدے کے وقت گاؤں میں جتنے بھی شادی شدہ جوڑے تھے، ان میں سے ہر ایک کو گیارہ سو مربعہ گز پر گھر معاہدے کے مطابق بنا کر دیا گیا، جن کی تعداد 172 ہے۔‘

ترجمان نے کہا رائلٹی ایک مکمل صوبائی موضوع ہے، سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی ایک ذمہ دار کمپنی کی حیثیت سے اپنے ذمہ رائلٹی کی رقم سندھ حکومت کو ادا کرچکی ہے، رائلٹی کی تقسیم سندھ حکومت کا اختیار ہے۔

سندھ حکومت کے مطابق تھر میں 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جہاں مختلف منصوبوں کے تحت 2019 سے بجلی بنائی جارہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان