سائنس دانوں کو دور دراز کائنات سے آنے والا کشش ثقل کی لہر کا ’انتہائی دلچسپ‘ سگنل ملا ہے۔
خلائی وقت میں پیدا ہونی والی لہروں کا پتہ لگانے والے سائنس دانوں کو ملنے والے اس سگنل کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوا جب نیوٹرون ستارہ کسی پراسرار شے میں ضم ہوگیا۔
یہ شے سائنس دانوں کے لیے اہم ہے کیوں کہ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی کمیت ہمارے سورج کی کمیت کے مقابلے میں ڈھائی سے لے کر ساڑھے چار گنا زیادہ ہے۔
اس طرح یہ شے ’کمیت کے فرق‘ کے زمرے میں شامل ہو جاتی ہے۔ کمیت کے اس فرق سے مراد سب سے وزنی نیوٹرون ستارے اور سب سے ہلکے معلوم بلیک ہول کے درمیان کی حد ہے جو ہمارے سورج کی کمیت سے دو سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
بہت کم چیزیں اس حد میں موجود ہیں اور سائنس دان ان کی نوعیت اور وجود میں آنے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
سائنس دانوں کو یہ معلوم نہیں کہ 65 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع نئی دریافت ہونے والی شے دراصل کیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ اسی طرح کے واقعات کا مزید جائزہ لینے سے اس راز سے پردہ ہٹانے میں مدد مل سکتی ہے اور یہ وضاحت کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ یہ کیا ہے اور یہ کس طرح تشکیل پائی۔
یہ سگنل جو اب جی ڈبلیو 230529 کے نام سے جانا جاتا ہے مئی 2023 میں موصول ہوا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کشش ثقل کی لہروں کا استعمال کسی ایسی شے کو تلاش کرنے کے لیے کیا گیا جو ’کمیت کے فرق‘ کے ساتھ نیوٹرون ستارے کا حصہ بنی۔
محققین کا ماننا ہے کہ دوسری پراسرار چیز بلیک ہول ہو سکتی ہے، لیکن وہ یقین سے ایسا نہیں کہہ سکتے۔
تاہم وہ زیادہ پراعتماد ہیں کہ یہ کمیت کے فرق کی کیٹگری میں ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’انتہائی دلچسپ واقعہ‘ تھا جو بظاہر دو کثیف اشیا کی وجہ سے ہوا۔ اس ضمن میں سائنس دانوں بلیک ہول جیسے کثیف مظاہر کا حوالہ دیا ہے۔
برمنگھم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جیرینٹ پریٹن کا کہنا ہے کہ ’ہم اس بات کا یقین کے ساتھ تعین نہیں کر سکے کہ کثیف اشیا بلیک ہول ہیں یا نیوٹرون ستارے، کیوں کہ کشش ثقل کی لہروں کا سگنل کافی معلومات فراہم نہیں کرتا۔‘
’ تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ بلیک ہول اور نیوٹرون ستارے کے آپس میں ضم ہونے کا عمل تھا۔ کچھ بھی ہو، ہم بہت پراعتماد ہیں کہ زیادہ کثیف شے کمیت کے فرق کے زمرے میں آتی ہے۔
’ہمارا تجزیہ پہلے ہی اہم معلومات فراہم کر رہا ہے جس سے ہمیں اس انضمام کے پیچھے موجود فلکیاتی عمل کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ کو مزید بہتر بنانے کا موقع ملتا ہے۔‘
یہ دریافت کش ثقل کا پتہ لگانے والی رصدگاہوں لیگو (لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری) اور ورگو اور کاگرا کے درمیان تعاون کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ رصدگاہیں دنیا بھر میں موجود تین مختلف آلات کا استعمال کرتی ہیں تاکہ کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کرنے والے خلائی وقت میں رکاوٹوں پر نظر رکھی جا سکے۔ تازہ سگنل گذشتہ سال تازہ ترین مشاہدے کے اختتام پر آیا۔
یہ مشاہدہ اگلے ہفتے دوبارہ شروع ہوگا کیوں کہ رصدگارہ کو دیکھ بھال کے لیے بند کیا گیا۔ مشاہدہ سال تک جاری رہے گا۔
محققین پہلے ہی تقریباً 80 دیگر ’اہم واقعات‘ کی نشاندہی کر چکے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس کام سے کمیت کے فرق اور کائنات کے بارے میں مزید اور زیادہ وسیع دائرے میں، معلومات حاصل ہوں گی۔
سائنس دانوں نے اب کشش ثقل کی لہروں کا استعمال کرتے ہوئے کثیف اجرام فلکی کے حجم کی تقریباً 200 پیمائشیں لی ہیں۔ صرف ایک اور انضمام پایا گیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں کمیت کے فرق والی کثیف شے شامل ہے۔
جی ڈبلیو 190814 کے نام سے جانا جانے والا سگنل ، جو 2020 میں رپورٹ کیا گیا اورمانا جاتا ہے کہ یہ بلیک ہول کے ایسی شے میں ضم ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوا جو سب سے زیادہ کثیف معلوم نیوٹرون ستاروں سے بھی زیادہ کثیف ہے۔
2016 کے اوائل میں کشش ثقل کی لہروں کا پہلا سراغ لگنے سے قبل، سائنس دان صرف برقی مقناطیسی مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے بلیک ہولز اور نیوٹرون ستاروں جیسی کثیف اشیا کی نوعیت کا اندازہ لگانے کے قابل تھے۔ اس طرح ’کثافت کے فرق‘ کا تصور سامنے آیا۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ماہر فلکیات مائیکل زیون کا کہنا ہے کہ ’نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول کی کثافتوں کے درمیان فرق کا تصور چوتھائی صدی سے موجود ہے جو اسی طرح کے برقی مقناطیسی مشاہدات کے نتیجے میں سامنے آیا۔‘
’جی ڈبلیو 230529 دلچسپ دریافت ہے کیوں کہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ’کمیت کا فرق‘ ماہرین فلکیات کے ماضی کے خیال سے کم ہے جس کے سپرنووا دھماکوں جن سے کثیف اشیا بنتی ہیں اور روشنی کے ممکنہ نظاروں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بلیک ہول نیوٹرون ستارے کو ٹکڑوں میں تبدیل کرتا ہے۔‘
اس دریافت کی رپورٹ امریکن فزیکل سوسائٹی کے اجلاس کو دی جا رہی ہے جہاں اس کا جائزہ لیے جانے کا انتظار ہے۔
© The Independent