کیا بی وائی ڈی پاکستان میں کامیاب ہو پائے گی؟

پاکستان میں نئی کار کمپنیوں کو قدم جمانے میں مشکل پیش آتی ہے، مگر بی وائی ڈی میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔

ٹیسلا کمپنی کے سی ای او ایلون مسک نے 2011 میں چینی کار کمپنی بی وائی ڈی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کمپنی اچھی گاڑیاں نہیں بناتی۔

لیکن جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے، Look who has the last laugh، اب بی وائی ڈی ’سستی چینی پروڈکٹ‘ بنانے والی کمپنی نہیں رہی، بلکہ ہر شعبے میں ٹیسلا کو ٹکر دے رہی ہے، چاہے وہ گاڑی کا ڈیزائن ہو، انٹریئر کا معیار ہو، یا پھر ٹیکنالوجی۔ جس کے بعد ایلون مسک بھی یوٹرن لینے پر مجبور ہو گئے۔

گذشتہ برس کی آخری سہ ماہی میں ٹیسلا نے چار لاکھ 84 ہزار الیکٹرک گاڑیاں فروخت کیں، جب کہ بی وائی ڈی نے پانچ لاکھ 26 ہزار گاڑیاں بیچ کر ٹیسلا کو اس کے اپنے میدان میں مات دے دی۔

اسی بی وائی ڈی نے حال ہی میں پاکستانی مارکیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور پاکستانی کمپنی ’میگا کنگلومیریٹ‘ کے ساتھ مل کر الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے جا رہی ہے۔

پاکستان میں گاڑیوں کی مارکیٹ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے پر بہت محدود ہے۔ آپ کسی مصروف سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر گاڑیاں گننے لگ جائیں تو سو میں سے 95 کے لگ بھگ گاڑیاں صرف تین کمپنیوں کی نظر آئیں گی۔ ان کمپنیوں نے پچھلے تیس چالیس برس میں پاکستانی کار مارکیٹ کو پوری طرح جکڑ رکھا ہے۔

پچھلے پانچ چھ برسوں میں چند نئی کار کمپنیوں نے پاکستان میں قدم رکھا تو ہے لیکن فی الحال ’بگ تھری‘ کا شکنجہ کمزور ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان نئی کمپنیوں کی اکثر گاڑیاں پاکستان کے لحاظ سے بہت زیادہ، یعنی کروڑ کے قریب قریب یا اس سے اوپر ہیں، اس لیے انہیں عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔

لیکن بی وائی ڈی ان نئی کمپنیوں سے مختلف ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بی وائی ڈی پیٹرول یا ہائبرڈ نہیں بلکہ مکمل الیکٹرک گاڑی لانچ کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ پاکستان میں فی الحال صرف ایک کمپنی ڈی ایف ایس کے نے ’سیریس‘ کے نام سے ایک الیکٹرک گاڑی متعارف کروائی ہے لیکن کم از کم اسلام آباد میں یہ گاڑی مجھے سڑکوں پر نظر نہیں آئی۔

بی وائی ڈی کو ڈی ایف ایس کے پر ایک اور برتری بھی حاصل ہے، اور وہ یہ کہ بی وائی ڈی نے دنیا بھر کی کار مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی بوچھاڑ کر دی ہے، اور اگر اسے چین کی پہلی بین الاقوامی پہنچ رکھنے والی کار کمپنی قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ 

اس کے علاوہ بی وائی ڈی کے پاس سستی گاڑیاں بھی موجود ہیں، جو وہ پاکستان میں متعارف کروا کر انہیں مقامی مارکیٹ میں مقبول کروا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بی وائی ڈی کی سب سے سستی الیکٹرک گاڑی ’سیگل‘ ہے، جس کی قیمت پاکستانی روپوں میں 27 لاکھ بنتی ہے۔

الیکٹرک ہونے کی وجہ سے اس پر ٹیکس اور ڈیوٹی کم ہوں گے اور اگر یہ گاڑی 35 لاکھ میں بھی پاکستان آتی ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔

اس کے مقابلے پر فی الوقت پاکستان میں سستی ترین الیکٹرک گاڑی ’سیریس‘ ہے، جس کی قیمت 83 لاکھ روپے ہے۔ 

بی وائی ڈی کا سونامی

جہاں مرسیڈیز، فورڈ، ٹویوٹا اور دوسری کار کمپنیوں کی ایک صدی سے بھی پرانی تاریخ ہے، وہاں بی وائی ڈی کی بطور کار کمپنی تاریخ صرف 21 سال پیچھے تک جاتی ہے۔

 بی وائی ڈی کا جنم 1995 میں ہوا اور وہ بھی بطور کار کمپنی نہیں، بلکہ بیٹریاں بنانے والی کمپنی کی حیثیت سے 

البتہ اس وقت اس کا نام یادی الیکٹرونکس تھا کیوں کہ یہ یادی روڈ پر قائم تھی۔ مگر یادی حروفِ تہجی میں بہت نیچے آتا تھا، اس لیے کمپنی نے ساتھ میں بی ویسے ہی لگا کر نام بیادی کر دیا۔ بعد میں بین الاقوامی مارکیٹ اسی ’بیادی‘ میں تھوڑا سا ردوبدل کر کے بی وائی ڈی کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ بلڈ یور ڈریمز، یعنی اپنے خواب تعمیر کرو، کا مخفف ہے۔

شروع میں یہ کمپنی شینژن شہر کی ایک چھوٹی سی گلی میں موبائل فون کی بیٹریاں بناتی تھی۔ ابتداً اس کے صرف 20 ملازم تھے اور کمپنی کے مالک وانگ چوان فو نے اسے صرف ساڑھے تین لاکھ ڈالر کے سرمائے سے شروع کیا تھا۔

مگر بی وائی ڈی کی بیٹریاں اتنی مقبول ہوئیں کہ رفتہ رفتہ اسے بین الاقوامی آرڈر ملنے لگے۔ اس کی دو وجہیں تھیں: بی وائی ڈی اس زمانے میں جاپانی بیٹریوں کو ریورس انجینیئر کر کے، اسی قسم کی بیٹریاں بناتی تھی، جو جاپانی کمپنیوں سونی اور سانیو کی بیٹریوں سے قیمت میں پانچ گنا کم تھیں، دوسرے یہ کہ معیار میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔

سونی اور سانیو دونوں نے بی وائی ڈی پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ بھی چلایا مگر اس کا کچھ نتیجہ نہیں نکل سکا۔

البتہ جو نتیجہ نکلا وہ یہی تھا کہ 2002 کے آتے آتے بی وائی ڈی دنیا میں چوتھی سب سے بڑی بیٹریاں بنانے والی کمپنی بن گئی۔

اس وقت تک بظاہر بی وائی ڈی کا کار مارکیٹ میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ پھر جنوری 2003 میں بی وائی ڈی کے سی ای او وانگ چوان فو نے اچانک شنچوان کار کمپنی خرید لی (7)، حالانکہ خود کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس کی مخالفت کی تھی، وجہ یہ کہ شنچوان دیوالیہ ہونے کے قریب تھی اور انہیں یہ گھاٹے کا سودا نظر آ رہا تھا۔

لیکن بی وائی ڈی نے جلد ہی کاریں بنانے میں اس قدر مہارت حاصل کر لی کہ 2005 میں اس کی بنائی گئی کار ’ایف 3‘ چین کی سب سے زیادہ بکنے والی کار بن گئی (4)۔

امریکی کاروباری شخصیت وارن بفٹ، کو وژنری انویسٹر کہا جاتا ہے، 

 ان کے وژن کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس ابتدائی میں ایک گمنام سی چینی کار کمپنی کا پوٹینشل دیکھ کر بی وائی ڈی میں 23 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر ڈالی۔

اس سے چینی سرمایہ کاروں کو بھی حوصلہ ملا اور بی وائی ڈی پر سرمائے کی بارش ہونے لگی۔

اس کے بعد بی وائی ڈی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

کسان کے گھر پیدا ہونے والا کمپنی کا بانی

اب آتے ہیں کمپنی کی سی ای او وانگ چوان فو کی طرف جن کی کہانی بڑی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت متاثر کن بھی ہے۔ وہ 1966 میں ایک غریب کسان کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی وہ سکول میں پڑھتے تھے کہ دونوں والدین فوت ہو گئے، جس کے بعد وانگ کی پرورش ان کی بڑی بہن اور بھائی نے کی۔

لیکن وانگ نے ہمت نہیں ہاری اور تعلیم جاری رکھی اور کیمسٹری میں ماسٹرز کرنے کے بعد صرف 29 سال کی عمر میں ساڑھے تین لاکھ ڈالر اور 20 ملازموں کے ساتھ بی وائی ڈی کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔

وانگ فان چو کا ذکر کرنا لازمی ہے جو صبح نو بجے دفتر آتے ہیں اور رات 11 بجے گھر جاتے ہیں۔

بی وائی ڈی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

وانگ چوان فو نے کمپنی میں سخت ورک ایتھک متعارف کروایا ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق کمپنی کے ملازم اکثر وہیں سو بھی جاتے ہیں اور ان کی زندگی بس کام اور کام ہے۔ بی وائی ڈی نے دسیوں ہزار انجینیئر بھرتی کر رکھے ہیں جنہیں تنخواہیں تو کم ملتی ہیں لیکن وہ دنیا کی کسی بھی بڑی کمپنی کے لاکھوں ڈالر تنخواہیں لینے والے ملازمین سے مہارت میں کم نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ دوسری کار کمپنیوں کے برعکس بی وائی ڈی اپنی گاڑیوں کے زیادہ تر پرزے خود ہی تیار کرتی ہے۔ اس سے معیار بہتر ملتا ہے اور قیمت کم ہو جاتی ہے۔

بی وائی ڈی کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسے چینی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ وانگ خود چائینیز کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہیں اور اس کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بی وائی ڈی کو حکومت کی طرف سے بھاری سبسڈی ملتی ہے۔

سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بی وائی ڈی کو 2015 اور 2020 کے دوران حکومت کی جانب سے چار ارب 30 کروڑ ڈالر کی سبسڈی ملی۔

اس کے علاوہ بی وائی ڈی کا بزنس بہت متنوع اور متحرک ہے۔ اگر اسے ایک طرف سے خسارہ بھی ہو جائے تو دوسری طرف سے پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بیٹریاں اور کاریں تو بناتی ہی ہے، اس کے ساتھ سیمی کنڈکٹر، ٹرینیں، شٹل اور فورک لفٹر بنانے کے کاروبار میں بھی حصہ لے رہی ہے، اور یہ سارے کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ 

یہی نہیں بلکہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے علاوہ بی وائی ڈی پیٹرول، ہائبرڈ اور ہائیڈروجن گاڑیاں بھی بنا رہی ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی وائی ڈی نے اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ڈال رکھے۔

تنوع، تحرک اور ورک ایتھک کی انہی خوبیوں کی وجہ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ جو کام دوسری کمپنیوں سے نہ ہو سکا، شاید بی وائی ڈی پاکستانی مارکیٹ میں کر گزرے اور بگ تھری کی اجارہ داری توڑنے میں کامیاب ہو جائے، جس سے پاکستانی عوام کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس معیاری گاڑیاں مناسب قیمت پر دستیاب ہو سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت