فلسطینی گروپ حماس کا کہنا ہے کہ وہ قاہرہ میں مذاکرات کے حالیہ دور کے دوران تجویز کردہ فائر بندی کے لیے ایک نئے فریم ورک پر غور کر رہا ہے جبکہ جنوبی غزہ میں واپس آنے والے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کے بعد ہونے والی بے تحاشہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے منگل کو حماس کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی خونریز ترین جارحیت کے چھ ماہ بعد، قطری، مصری اور امریکی ثالثوں نے ایک اور عارضی فائر بندی کی تجویز پیش کی ہے۔
تین حصوں پر مشتمل اس تجویز پر عمل درآمد کی صورت میں اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کے پاس قیدیوں کے تبادلے کے لیے چھ ہفتوں تک لڑائی روکی جائے گی۔
حماس نے منگل کو ثالثوں کی کوششوں کو ’سراہتے‘ ہوئے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کے دوران اس کے کسی بھی مطالبے کا جواب نہیں دے رہا ہے۔
فلسطینی گروپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس کے باوجود، تحریک کی قیادت پیش کردہ تجویز پر غور کر رہی ہے۔ ‘
کئی مہینوں کی شدید لڑائی کے بعد، اسرائیل نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں اعلان کیا کہ اس نے جنوبی شہر خان یونس سے اپنی فوجیں نکال لی ہیں تاکہ جنگ کے اگلے مرحلے، جس میں رفح پر حملہ بھی شامل ہے، کی تیاری کے لیے فوجی واپس جا سکیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے پیر کو کہا کہ غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر، جہاں بے گھر فلسطینی آبادی کی اکثریت موجود ہے، میں زمینی فوج بھیجنے کے لیے ایک تاریخ طے کر دی گئی ہے۔
غیر ملکی طاقتوں اور انسانی امداد کے اداروں نے بڑے پیمانے پر شہری اموات کے خوف سے مسلسل اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ وہاں کوئی کارروائی نہ کرے۔
لیکن نتن یاہو اور ان کے فوجی کمانڈروں کا اصرار ہے کہ دوسری صورت میں حماس پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی۔
نتن یاہو نے ایک ویڈیو، جس میں وقت کی وضاحت نہیں کی گئی تھی میں کہا کہ ’یہ ہوگا – اس کے لیے ایک تاریخ طے ہے۔‘
اس کے جواب میں، اسرائیل کے اہم حمایتی امریکہ نے رفح آپریشن پر اپنے اعتراضات دہرائے اور کہا کہ اس سے ’بالآخر اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا‘، جب کہ اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اسے ’فائربندی کا صحیح وقت‘ قرار دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلسطینی رمضان کے اختتام پر جب بدھ کوعید الفطر کی چھٹی کے لیے تیاری کر رہے تھے تو رفح کے بالکل شمال میں خان یونس واپس آنے والوں کو ملبے کے ڈھیروں کا سامنا کرنا پڑا جہاں کبھی مکانات اور دکانیں کھڑی تھیں۔
شہر واپس آنے کے بعد ام احمد الفگاوی نے کہا کہ ’میں اپنا گھر دیکھنے آئی تھی، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ اسے تباہ اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میں نے جو دیکھا اس سے میں حیران ہوں۔ ہر گھر تباہ ہو گیا، نہ صرف میرے بلکہ تمام پڑوسیوں کے گھر بھی۔‘
ایک اور واپس آنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ ’ایک تباہ شدہ جگہ‘ دیکھنے واپس آئی تھیں۔
انہوں نےکہا کہ ’نہ پانی، نہ بجلی، نہ ستون، نہ دیواریں اور نہ دروازے، کچھ بھی نہیں ہے۔ غزہ اب غزہ نہیں رہا۔‘
فوجیوں کی واپسی اس وقت ہوئی ہے جب اسرائیل کو اپنی جارحیت روکنے اور خوراک کی کمی کے شکار علاقے میں مزید انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے زبردست بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو ہونے والے حملوں کے بعد سے، محاصرے میں غزہ کے باشندے خوراک، پانی اور دیگر بنیادی اشیا سے محروم ہیں۔
امداد کی ترسیل کے ذریعے شدید قلت کو کم سے کم کیا گیا ہے، انسانی ہمدردی کے گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ رسد میں تیزی آنے والے ’انسانی ساختہ‘ قحط کو نہیں ٹالے گی۔
غزہ کی پٹی میں امداد بھیجنے کا انتظام کرنے والے اسرائیلی ادارے COGAT کے مطابق پیر کو، 419 امدادی ٹرکوں کو علاقے میں جانے کی اجازت دی گئی، جنگ کے آغاز کے بعد سے ایک ہی دن میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کے عزم سے جارحیت شروع کی تھی جس میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق میں کم از کم 33,207 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
حماس کے ایک ذرائع نے پیر کو بتایا کہ لڑائی کو روکنے کی حالیہ تجویز میں چھ ہفتے کی فائربندی ہوگی اور حماس کے پاس قید اسرائیلی خواتین اور بچوں کو 900 فلسطینی قیدیوں کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، اس معاہدے سے غزہ پٹی کے شمال میں بے گھر فلسطینی شہریوں کی واپسی اور روزانہ 400 سے 500 ٹرک خوراک کی امداد مل سکے گی۔
ثالثی کے پچھلے دور کے دوران، جو تعطل پر ختم ہوا، حماس نے ایک جامع فائر بندی، غزہ کی پٹی سے مکمل اسرائیلی انخلا اور امداد کی ترسیل پر کنٹرول کا مطالبہ کیا تھا۔
مہینوں کے مذاکرات اور شٹل ڈپلومیسی کے باوجود، اب تک مذاکرات کے ذریعے واحد فائر بندی نومبر 2023 میں ہوئی تھی، جب 78 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی رہنما سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے شہریوں کے تحفظ اور فائر بندی تک پہنچنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
غزہ کے حکمرانوں کے ساتھ اب مجوزہ معاہدے کے ساتھ، امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ حماس پر ’منحصر ہے۔‘
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’کچھ دن پہلے کی نسبت آج زیادہ پر امید ہیں‘ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم کسی بھی طرح سے بات چیت کے آخری مرحلے پر نہیں ہیں۔‘