اسرائیل نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ وہ قحط کے خطرے سے دوچار شمالی غزہ میں امداد کی ’عارضی‘ ترسیل کی اجازت دے گا۔
اسرائیل کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب چند گھنٹے قبل ہی امریکہ نے غزہ کے معاملے پر اپنی پالیسی میں تبدیلی کی وارننگ دی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو 30 منٹ دورانیے کی ایک فون کال میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو بتایا کہ اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی غزہ میں شہریوں اور امدادی کارکنوں کے تحفظ پر منحصر ہے۔ یہ واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کی فوجی مدد کے لیے ممکنہ شرط کی طرف پہلا اشارہ تھا۔
کچھ ہی گھنٹے بعد رات گئے اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کے لیے مزید امدادی راستے کھول دے گا۔
نتن یاہو کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ نے اشدود پورٹ اور ایریز لینڈ کراسنگ کے ذریعے ’عارضی‘ امداد کی ترسیل کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک اردن سے کریم شالوم کراسنگ پر بھی ترسیل میں اضافہ کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’صدر کی درخواست پر‘ کیا گیا اقدام قرار دیا اور کہا کہ انہیں ’اب مکمل طور پر اور تیزی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ میں چھ ماہ سے جاری جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کے اہم حمایتی امریکہ نے اس کی سخت سرزنش کی ہے۔
حماس کے زیرانتظام غزہ میں وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیل میں ہونے والے حماس حملوں کے بعد سے اسرائیل کی انتقامی مہم کے دوران غزہ میں 33 ہزار سے زائد افراد جان سے جاچکے ہیں اور امداد کے نہ پہنچنے کے باعث شدید قحط کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
امدادی اداروں نے متعدد بار اسرائیل پر امدادی قافلوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ رواں ہفتے ہی ورلڈ سینٹرل کچن کے سات ارکان غزہ میں خوراک کی تقسیم کے دوران اسرائیلی حملے کا نشانہ بن کر جان سے جا چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے نتن یاہو کو بتایا: ’امدادی کارکنوں پر حملے اور مجموعی انسانی صورت حال ناقابل قبول ہے۔‘
بائیڈن نے یہ بھی واضح کیا کہ ’غزہ کے حوالے سے امریکی پالیسی کا تعین اسرائیل کے فوری اقدامات کے امریکی جائزے کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ انسانی صورت حال کو بہتر بنایا جا سکے۔‘
طویل عرصے سے اسرائیل کے حامی بائیڈن کو غزہ کی صورت حال کے بارے میں اپنی پالیسیوں اور ردعمل پر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نتن یاہو کے لیے بائیڈن کی ’بڑھتی ہوئی مایوسی‘ کو تسلیم کیا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے حماس کو تباہ کرنے کے عزم کا اظہار کر رکھا ہے جبکہ انہوں نے غزہ کے جنوبی شہر رفح کے 10 لاکھ سے زیادہ شہریوں کو بھی راستے سے ہٹانے کا عہد کیا ہوا ہے۔
نتن یاہو کو غزہ میں ابھی تک موجود اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں اور حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے بھی ملک میں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹز، جو نتن یاہو کے ایک مرکزی سیاسی حریف بھی ہیں، نے مطالبہ کیا ہے کہ ستمبر میں فوری انتخابات کروائے جائیں، تاہم اس مطالبے کو وزیراعظم نتن یاہو کی دائیں بازو کی لکوڈ پارٹی نے مسترد کر دیا ہے۔
غزہ میں اب تک کی سب سے خونریز جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر ایک حملے سے ہوا، جس کے نتیجے میں 1,170 اسرائیلی اور غیر ملکی مارے گئے۔
حماس نے 250 سے زائد افراد کو قیدی بھی بنایا، جن میں سے 130 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کی بے دریغ بمباری سے غزہ کا زیادہ تر علاقہ ملبے میں تبدیل ہوگیا ہے، ہسپتالوں کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور 24 لاکھ فلسطینیوں کو خوراک، پانی، ایندھن اور دیگر بنیادی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
آٹے کے ایک تھیلے کی امید
غزہ کے شہری آٹے کا ایک تھیلا ملنے کی امید میں رات بھر امداد کی ترسیل کے مقام کے قریب ہی سوتے رہے۔
ایک شخص نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم سڑکوں پر، سردی میں، ریت پر سوتے ہیں اور اپنے خاندانوں، خاص طور پر اپنے چھوٹے بچوں کے لیے خوراک کے حصول کے لیے مشکلات برداشت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے یا ہماری زندگی یہاں تک کیسے پہنچی ہے۔‘
طبی ادارے ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) نے اسرائیل پر غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کا الزام لگایا ہے اور قتل عام کے مناظر کو کسی بھی ہسپتال کی صلاحیت سے باہر بیان کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے ایم ایس ایف کے ڈپٹی پروگرام مینیجر امبر الیان نے کہا: ’دنیا کا کوئی بھی صحت کی دیکھ بھال کا نظام اس قسم کے زخموں کے حجم اور طبی حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتا، جو ہم (غزہ میں) روانہ دیکھ رہے ہیں۔‘