لاہور میں تھانہ شاہدرہ کے ایس ایچ او تحسین نجم نے حالیہ بدفعلی کے مقدمے کے تحت گرفتار ملزم کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پیر کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر جانے والا قاری بچوں سے بد فعلی کرنے کا عادی ہے۔‘
ایس ایچ او تحسین نے مزید بتایا کہ ’ملزم ریکارڈ کے مطابق حال ہی میں تین بچوں سے بدفعلی کر چکا ہے۔ گزشتہ برس 13 نومبر کو بھی اس نے شاہدرہ میں ہی ایک بچے کو اپنا نشانہ بنایا جبکہ اس کے بعد چند ہفتے قبل اس نے تاندلیانوالا، فیصل آباد میں بھی ایک بچے سے بد فعلی کی اور اب پھر سات اپریل کو اس نے شاہدرہ میں ہی ایک اور بچے کو نشانہ بنایا۔‘
ایس ایچ او تحسین نجم کا کہنا تھا ’پچھلے دونوں کیسسز میں اسے اس لیے رہا کر دیا گیا تھا کیونکہ متاثرہ خاندانوں نے اس سے صلح کر لی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ شاہدرہ میں ہونے والے واقعے میں پولیس نے ملزم کا عدالت سے چار روزہ جسمانی ریمانڈ لیا ہے تاکہ اس سے مزید تفتیش کی جا سکے۔
ایس ایچ او کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ملزم کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے جبکہ اس کی عمر 25 سے 30 سال کے درمیان ہے اور یہ شاہدرہ میں مدرسوں میں پڑھاتا ہے۔‘
دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو نے ملزم کے ہاتھوں بدفعلی کا شکار ہونے والے بچے کے والد سے بھی رابطے کی کوشش کی مگر انہوں نے جواب نہیں دیا البتہ انہوں نے تھانہ شاہدرہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والے جرم کی ایف آئی آر وقوعہ کے روز ہی درج کروا دی تھی جس کے نتیجے میں شاہدرہ پولیس نے ملزم کو جائے وقوعہ سے ہی حراست میں لے لیا تھا۔ تھانہ شاہدرہ میں درج ایف آئی آر دفعہ 376(3) کے تحت درج کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف آئی آر کے مطابق شاہدرہ کے رہائشی بچے کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ’سات اپریل بروز اتوار صبح تین بجے انہوں نے اپنے نو/ دس سالہ بیٹے کو سحری کا سودا لینے بازار بھیجا، جب بچہ کچھ دیر تک واپس نہ آٰیا تو والد نے فکر مند ہو کر اپنے بیٹے کی تلاش شروع کر دی۔‘
جب تلاش کرتے وہ جیا موسیٰ قبرستان پہنچے تو دیکھا وہاں کچھ لوگ جمع تھے جبکہ ان کا بیٹا وہیں کھڑا زاروقطار رو رہا تھا۔ لوگوں نے نامزد قاری کو روک رکھا تھا ۔
جب والد نے بیٹے سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ملزم اسے بہلا پھسلا کر قبرستان لے آیا اور اس کے ساتھ بدفعلی کی، بچے کے شور کرنے پر وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے اور ملزم کو پکڑ لیا۔
اس کیس کے حوالے سے نیشنل کمشن آن دی رائٹس آف چائلڈ کی چیئر پرسن عائشہ رضا فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری پوری کوشش ہے مذکورہ ملزم کو قانون کے مطابق جو بھی سزا ہے وہ ضرور ملے۔ اینٹی ریپ ایکٹ ہے جس کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے اس میں سوڈومی، میریٹل ریپ اور کئی دیگر ایسے جرائم شامل کر دیے گئے ہیں، اسی کے تحت ملزم کا ٹرائل ہونا چاہیے۔‘