ایک صاحب جو خدا اور مذہب سے خاصے بیزار ہیں، مجھ سے بولے کہ’ انسان اپنے ہونے کا، اپنے آس پاس ہر شے کے ہونے کا سبب اس کے پیچھے چھپی ہوئی کسی ان دیکھی یا ماورائے عقل تحریک میں کیوں ڈھونڈتا ہے؟
’سائنس، منطق، ذہانت، ارتقائی عمل اور مشاہدے پر اکتفا کر کے ہی کوئی کھوج کیوں نہیں نکالتا؟ یہ خدا پرستی کیوں نہیں جاتی لوگوں میں سے؟‘
میں نے کہا، ’معنویت کے حصول میں آزاد انسان پر پابندی کیوں، آپ بھلے فری تھنکر بنیں لیکن یہ فکری زور زبردستی کیسی؟ جو جیسے کر رہا ہے کرنے دیں۔ ڈھونڈنے دیں جو جیسے ڈھونڈ رہا ہے۔‘
وہ صاحب کہنے لگے کہ ’یہ سب گھڑی گھڑائی گیم لگتی ہے، حکمرانوں اور راجدھانیوں کی تاکہ انسان کو مذہبی گروہوں میں بانٹ کر ان میں تفرقہ ڈالا جائے اور ان پر نسل در نسل حکومت کی جا سکے۔ ان قِصوں کے ذریعے متلاشی انسان کو معنویت دیتے خدا کے نام پر قابو کر کے ریاست کی اطاعت درکار ہوتی ہے۔
’کوئی ایشور اور اس کا مظہر بنے رنگ برنگے بھگوان بنا رہا ہے، کوئی خدا کو عرش پر بٹھا کر اس کے لاکھوں برگزیدہ بندے اور فرشتے گِنوا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ اوریجنل سِن، ایشور اور اس کی قربانی، جہنم سے نجات، حساب و کتاب، سب سراب ہیں۔ مینوپولیشن ٹولز ہیں جِن کے چُنگل سے انسان کو نکلنا ہو گا۔‘
میں نے کہا کہ ’چلیں حضرت آپ یہ تو مانتے ہیں کہ انسان معنویت ڈھونڈتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اپنی کھوج کو جب کوئی معنی نہیں پہنا پاتا تو وقت کے رائج خداؤں اور ان کی خدائی میں خود کو کہیں نہ کہیں فٹ کر لیتا ہے۔ اگر آپ کی بات سے اختلاف نہ بھی کروں تو بھی اہم چیز تو انسان کی کھوج ہی ہوئی۔ انسان کی معنویت کی تلاش ہوئی۔ ابراہیمی مذاہب ہوں یا گیتا اور اشلوک، ہو سکتا ہے کہ یہ سب انسان کے کروڑوں لاکھوں سال کے ارتقائی سفر میں چند ہزار سال کے مختصر سے سنگِ میل ہوں؟
’ کیا پتہ کہ سب قصوں، کتابوں، سائنسوں، فزکس، کوانٹم فزکس، ریاضی، منطق، تجزیوں، نِت نئے نظریات اور دریافتوں کے سفر اس لیے ہیں کہ کسی سنگِ میل پر انسان کے ہاتھ کوئی ایسی معنویت آ ہی جائے کہ انسان باجماعت اس سے مطمئن ہو جائے اور پچھلے سب باب بھلا کر اس معنویت پر اکٹھا ہو جائے؟
’ویسے اور بھی زیادہ مزہ تب آئے جب وہ سنگِ میل بھی انسان کو کسی خدا سے ہی ملا دے۔ ایسے خدا سے جسے انسان بنا کسی تردد، خوف اور غرض کے بےساختہ ہو کر پوجنے لگے۔ ایسا خدا جو انسانوں سے کوئی تاوان نہ مانگے، ان میں کوئی تفریق نہ کرے۔ انسان کو درکار ہر معنویت کو مکمل کر کے اس کی تشنگی کو سیراب کر دے۔ ایسا خدا جس سے انسان کو فوراً ہی بہت سا پیار ہو جائے۔‘
وہ خدا بیزار صاحب بھی عجیب نکلے۔ بولے، ’ہاں وہی تو میرا اور تمہارا خدا ہے!‘