وائٹ ہاؤس نے گذشتہ چھ ماہ سے اپنی روایتی پریس بریفنگ منعقد نہیں کی۔ یہ 191 دن بنتے ہیں۔ موجودہ پریس سیکرٹری اور کمیونیکیشن ڈائریکٹر سٹیفنی گریشم کم ہی نظر آتی ہیں۔ یہ ان کے ان گنت پیشروؤں جیسا نہیں ہے۔ جب سے وہ میلانیا ٹرمپ کے بجائے صدر ٹرمپ کی ترجمان بنی ہیں وہ زیادہ تر منظر عام سے غائب ہی رہتی ہیں۔
اس دور میں ڈونلڈ ٹرمپ کو جان بیرن نامی نامعلوم رپورٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود ہی اپنے پریس سیکرٹری اور تشہیر کرنے والے ہیں۔ انہیں اس کے لیے کسی کی مدد درکار نہیں ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم سب روزانہ کی بنیاد پر ان کے غیر آمیزش شدہ خیالات سے آگاہی رکھ سکیں۔ یہ ان کا زیادہ ہی فعال ٹوئٹر اکاؤنٹ ہو،واہٹ ہاؤس کے صحن میں کی جانے والی ان کی بے ربط پریس کانفرنسیں ہوں یا ان کی نفرت پھیلاتی ریلیاں ہوں، میڈیا کو ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ ہی کافی مواد مہیا کرتے ہیں۔ آپ کو پہلی نظر میں یہ ایک اچھی بات نظر آئے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن نمایاں رہنے کا یہ شوق ناگزیر مسائل کی وجہ بن رہا ہے۔ صحافی پریس روم میں جتنا زیادہ وقت گزارتے ہیں رپورٹرز کو اہم سوال پوچھنے کے لیے اتنا ہی کم موقع ملتا ہے۔ صبح تین بجے کی گئی ٹویٹ پر سوالوں کے جواب میں سوال کرنے کے امکانات بہت کم ہو چکے، کسی ریلی میں لگائے گئے نعروں کی حقیقت جانچنے کے لیے موقعہ اور بھی کم ملتا ہے۔ ہاں لیکن صدر کے پیغام کو دہرانے کا موقع بھرپور ملتا ہے لیکن وہ ہمارے سوال کرنے کے حق کو روک رہے ہیں۔
ایک صحافی کے طور پر جو امریکہ میں بریکنگ نیوز اور سوشل میڈیا پر گہری نگاہ رکھتے ہیں میں ان سرکاری پریس بریفنگز کو یاد کرتی ہوں۔ اب نیوز ایجنڈا زیادہ تر صدر ٹرمپ کی ٹویٹس کے گرد ہی گھومتا ہے۔ ایک وقت تھا جب نیوز کانفرنس ہمیں موقع دیتی تھی کہ ہم دقیق موضوعات پر سوال کر کے وضاحت لے سکیں اور وائٹ ہاؤس کو خبروں کی زینت بنا سکیں۔ لیکن اب جب صدر خود خبروں کی زینت رہتے ہیں تو ایسا ہونا کافی مختلف محسوس ہوتا ہے۔
اب جبکہ شان سپیسر ڈانسنگ ود دی سٹارز اور سارہ ہکابے سینڈرز فاکس نیوز کی راہ پر ہیں ہم شاید دن گن رہے ہوں جب یہ اعلان کیا جائے کہ سٹیفنی گریشم دی ویو کی پینلسٹ بن چکی ہیں، اور اس کے بعد ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہو گا۔ صدر ٹرمپ ہی وہ واحد انسان رہ جائیں گے جو ہمیں بتا سکیں گے کہ کیا ہو رہا ہے۔ امید ہے ایسا نہیں ہوگا۔
آپ کی
لوسی اینا گرے
اسسٹنٹ ڈائریکٹر آڈیئنس
© The Independent