سلامتی کونسل اجلاس میں ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر الزامات

اتوار کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

14 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا ایک منظر(اے ایف پی)

ایران کے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاڈ ایردان نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر غیر معمولی حملے کے بعد بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کے عالمی سپانسر ایران نے خطے اور دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے کے طور پر اپنا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔‘

انہوں نے اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کو ایران کے خلاف کارروائی کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ’نقاب اتر چکا ہے لیکن دستانے پہنائے جانے ضروری ہیں۔‘

ایردان نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اسلامی جمہوریہ ایران کے پاسداران انقلاب کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے اور بہت دیر ہونے سے پہلے ایران پر تمام ممکنہ پابندیاں عائد کرے۔‘

اس دوران انہوں نے ’سنیپ بیک‘ میکانزم کا حوالہ دیا جو 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے ارکان کو ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اجلاس کے دوران امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’سلامتی کونسل کے ارکان کی حیثیت سے ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایران سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تعمیل کرے اور چارٹر کی خلاف ورزیاں بند کرے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا آنے والے دنوں میں امریکہ ’ایران کو جواب دہ بنانے کے لیے مزید اقدامات پر غور کرے گا۔‘

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر پہلی بار براہ راست حملہ کرتے ہوئے 300 سے زائد میزائل اور ڈرون داغے۔ جن میں سے تقریباً سبھی کو اسرائیل اور امریکہ، اردن اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے روک دیا۔

ایران کا کہنا ہے کہ یہ حملہ دمشق میں اس کے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کے جواب میں کیا گیا ہے۔

ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایروانی نے کہا کہ’ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے دفاع کا بنیادی حق استعمال کر رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے اپنے فرض میں ناکام رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس لیے تہران کے پاس جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور ان کا ملک کشیدگی یا جنگ نہیں چاہتا لیکن کسی بھی خطرے یا جارحیت کا جواب دے گا۔‘

انہوں نے اسرائیل کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل اپنی ذمہ داری نبھائے اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو درپیش حقیقی خطرے سے نمٹے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کو اسرائیلی حکومت کو غزہ کے عوام کے خلاف نسل کشی روکنے پر مجبور کرنے کے لیے فوری اور تادیبی اقدامات کرنے چاہئیں۔‘

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ پر چھ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 33 ہزار 729 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

سال 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ ایران اسرائیل کو ایک کھلا دشمن تصور کرتا رہا ہے اور اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ کرتا ہے۔

اتوار کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے ہنگامی اجلاس میں فریقین سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نہ تو خطہ اور نہ ہی دنیا مزید جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ کشیدگی کو کم کیا جائے۔‘

انتونیو گوتیریش نے اسرائیل پر ایران کے حملوں اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کی بھی مذمت کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا