اقوام متحدہ نے بدھ کو خبردار کیا ہے کہ خواتین کے جسم سیاسی ’میدان جنگ‘ بن چکے ہیں، جس سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے جنسی اور تولیدی صحت پر 30 سال کی پیش رفت خطرے میں پڑ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے جنسی اور تولیدی صحت کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے کہا کہ اگرچہ زچگی کے دوران شرح اموات اور غیر ارادی حمل کی شرح میں مسلسل کمی آ رہی ہے لیکن اب اہم اقدامات پر اب پیش رفت سست یا بالکل رک گئی ہے۔
یو این ایف پی اے کی سربراہ نتالیہ کنیم نے کہا کہ 20 سال قبل، قاہرہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں 179 ممالک نے تولیدی صحت کو پائیدار ترقی کو مرکزی حیثیت دینے پر اتفاق کیا تھا جس نے عشروں میں اس شعبے میں ترقی کی راہ ہموار کی. نتالیہ خود بھی س کانفرنس میں شریک تھیں۔
سال 1978 سے سالانہ شائع ہونی والی یو این ایف پی اے نے اپنی فلیگ شپ سالانہ سٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ میں کہاا کہ س کے بعد سے دنیا بھر میں غیر ارادی حمل کی شرح میں تقریباً 20 فیصد کمی آئی ہے اور 2000 اور 2020 کے درمیان زچگی کے دوران اموات کی تعداد میں 34 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
تب سے مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے اور کم از کم 162 ممالک نے گھریلو تشدد کے خلاف قوانین منظور کیے ہیں۔
نتالیہ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ تاہم خواتین، لڑکیوں اور مخلوط صنف والے افراد کے چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ زچگی سے اموات میں سالانہ کمی میں کوئی بہتری نہیں آئی جیسا کہ 2016 کے بعد سے دنیا نے خواتین کو حمل اور بچوں کی پیدائش کے وقت اموات روکنے میں صفر پیش رفت کی ہے۔
یو این ایف پی اے نے کہا کہ نسل پرستی، جنس پرستی اور امتیازی سلوک کی دیگر اقسام بھی خواتین اور لڑکیوں کے لیے جنسی اور تولیدی صحت میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ’اعداد و شمار انتباہ ہیں۔ وہ خواتین اور لڑکیاں جو غریب ہیں، نسلی اور مقامی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھتی ہیں، یا تنازعات کے ماحول میں پھنسی ہوئی ہیں ان کے مرنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ ان کے پاس بروقت صحت کی دیکھ بھال تک رسائی نہیں ہے۔‘
نتالیہ کنیم نے خواتین کے جسموں کو بطور سیاسی میدان جنگ استعمال کرنے بھی تنقید کی مثال کے طور پر فرٹیلیٹی کے علاج اور اسقاط حمل سے متعلق سوالات پر رواں سال امریکی صدارتی انتخابی مہم کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یو این ایف پی اے انفرادی رکن ممالک کی پالیسیوں پر کوئی پوزیشن نہیں لیتا لیکن نتالیہ نے کہا کہ جہاں قانونی، اسقاط حمل محفوظ اور قابل رسائی ہونا چاہیے وہیں غیر قانونی، اور اسقاط حمل کے بعد کے مسائل، جیسےعام طور پر خون بہنے سے متعلق مسئلوں کے لیے سروسز دستیاب کرائی جانی چاہییں۔
ان کے بقول غیر محفوظ اسقاط حمل عالمی سطح پر زچگی سے موت کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن اکثر ڈاکٹر موت کے سرٹیفکیٹ پر غیر محفوظ اسقاط حمل تحریر نہیں کرتے۔
نتالیہ نے اصرار کیا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں اور فلاح و بہبود کو درحقیقت سیاسی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ صنفی بنیاد پر تشدد عملی طور پر ہر ملک میں بدستور جاری ہے جبکہ چار میں سے ایک عورت مباشرت سے انکار نہیں سکتی۔
تقریباً نصف خواتین اب بھی اپنے جسم کے بارے میں فیصلے کرنے سے قاصر ہیں اور نہ ہی جنسی اور تولیدی صحت کے حوالے سے اپنے حقوق کا استعمال کر سکتی ہیں۔
گذشتہ ماہ گیمبیا کے قانون سازوں نے خواتین کے ختنے کی رسم پر پابندی کو ختم کرنے پر غور شروع کیا۔
نتالیہ نے کہا کہ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا جب ایف جی ایم (خواتین کے ختنہ) سےمتاثرہ خواتین کی تعداد 230 ملین سے زیادہ ہے اور 2016 سے اس تعداد میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ تمام سماجی و اقتصادی طبقات اور نسلوں کی خواتین کو وقت کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال تک آسان رسائی حاصل ہوءی ہے لیکن سب سے زیادہ پسماندہ خواتین اب بھی اس سے محروم ہیں۔
پورے امریکہ میں، افریقی نسل کی خواتین کی پیدائش کے وقت موت کا امکان سفید فام عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
ادارے نے کہا کہ امریکہ میں یہ شرح قومی اوسط سے تین گنا زیادہ ہے۔
معذور خواتین کو صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرنے کا امکان بغیر معذوری والی خواتین کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
یو این ایف پی اے نے کہا کہ ایک افریقی خاتون جو حمل اور بچے کی پیدائش کی پیچیدگیوں کا سامنا کرتی ہے، ان کے مرنے کا امکان یورپ اور شمالی امریکہ کی ایک خاتون کے مقابلے میں 130 گنا زیادہ ہوتا ہے۔