پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ ماہ رمضان کی برکتیں تو سمیٹ ہی رہے ہیں، وہیں عید کے قریب بازاروں میں رش سے بچنے کے لیے عید کی خریداری بھی ابھی سے کر رہے ہیں۔
اس خریداری میں لباس اور جیولری کے ساتھ جوتے بھی شامل ہیں اور چونکہ موسم گرما کا تقریباً آغاز ہوا ہی چاہتا ہے تو ایسے میں خواتین اونچی ایڑی کے جوتے یعنی ہیلز بھی خرید رہی ہیں۔
بہت سی خواتین کے مطابق اونچی ایڑی پہننے کا ایک بنیادی مقصد قد کو بڑا دکھانا ہے، لیکن شاید بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہیلز کیوں، کیسے اور کس مقصد کے لیے بنائی گئی تھیں۔
اونچی ایڑی کی تاریخ بہت دلچسپ ہے، جسے پڑھ کر شاید قارئین کو یہ اندازہ ہو سکے گا کہ کیسے معاشرے میں کوئی چیز یا عمل زیادہ عرصے تک رہنے سے کلچر کا حصہ بن جاتا ہے، جس طرح پہلے پہل ’طاقت کی نشانی‘ سمجھی جانے والی ہیلز کو اب خواتین میں مقبول فیشن سے منسوب کیا جاتا ہے۔
ہیلز کی ایجاد کب اور کیسے ہوئی؟
دنیا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جنگی ٹیکنالوجی کے تحت ایسی مفید ایجادات کی گئیں جو بعد میں عوام نے بڑے پیمانے پر اپنا لیں اور آج کم لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ جو چیزیں روزانہ استعمال کر رہے ہیں، دراصل جنگی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھیں۔
نیٹو کی ویب سائٹ کے مطابق ایسی ہی ایجادات میں سٹین لیس سٹیل، ٹی بیگز، ڈیجیٹل کیمرا، نائلون، ٹی شرٹ، مائیکرو ویو اوون، جی پی ایس، ایلفی گوند، ڈورن، حتیٰ کہ انٹرنیٹ تک شامل ہیں۔
ایسی ہی ایجادات میں اونچی ایڑی کے جوتے بھی شامل ہیں، جو فوجی استعمال کے لیے بنے تھے، لیکن بعد میں انہوں نے فیشن کا درجہ اختیار کر لیا۔
مردوں نے 10 ویں صدی میں اونچی ایڑی کے جوتے پہننا شروع کیے تھے۔ اس وقت ایران میں گھڑ سواروں کو فکر تھی کہ کیسے گھوڑے کو دوڑاتے وقت رکاب میں پاؤں مضبوطی سے جمائے رکھے جائیں۔ سیدھے تلے والے جوتے رکاب میں پھسل جایا کرتے تھے، خاص طور پر جب گھوڑا جنگ کے میدان میں ناہموار زمین پر سرپٹ بھاگ رہا ہو اور جہاں اس کا رخ حملہ کرنے یا حملے سے بچنے کے لیے بار بار بدلنا پڑے۔ اس دوران اگر سوار گھوڑے سے گر جائے تو اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
اس مسئلے کا حل کرنے کے لیے ایرانیوں نے روایتی ’گالش‘ نامی جوتے میں ایک جدت پیدا کی جس کے تحت اس کی ایڑی اونچی کر دی۔ اب رکاب کو تلے اور اونچی ایڑی کے درمیان پھنسا دیا جاتا تھا اور یوں سوار کو مستحکم گرفت حاصل ہو جاتی تھی۔
اس قسم کی ہائی ہیلز پہننے سے گھڑ سواروں کو جنگ کے دوران دو فائدے ہوتے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ گھوڑے کی پشت پر جم کر بیٹھے اور گرنے کے خطرے سے محفوظ رہتے تھے، دوسرا یہ کہ اس توازن کی وجہ سے انہیں دورانِ جنگ تلوار، تیر کمان یا برچھا استعمال کرنے میں سہولت رہتی تھی۔
گوگل آرٹ اینڈ کلچر پر موجود ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس زمانے میں مرد گھڑ سواروں اور جنگجوؤں نے ہیلز کو گھڑ سواری کے دوران استعمال کرنا شروع کیا۔
بعدازاں ہیلز پہننے کا رواج مردوں میں رفتہ رفتہ عام ہو گیا اور یہی رواج یورپ میں بھی جا پہنچا۔ 17 ویں صدی کے آتے آتے ایک انچ والی ہیلز کے جوتے گھڑ سواروں کے علاوہ دیگر لوگ بھی پہننے لگے۔
گوگل آرٹ اینڈ کلچر پر شائع مضمون کے مطابق اس وقت گھوڑے رکھنا امیروں کی نشانی تھی اور یوں ہیلز پہننا بھی امیری اور طاقت کی نشانی بن گئی۔ پھر جنگجو گھڑ سواروں (نائٹس) کے ساتھ ایک رومانس اور کشش بھی منسوب تھی، جس کی وجہ سے ان کا فیشن تیزی سے پھیلنے لگا۔
مردوں کی جانب سے ہیلز پہننے کا رواج عام ہونے کے بعد 17ویں صدی کے آخر میں اس وقت کے شاہ ایران نے جرمنی، روس اور سپین کو ایک وفد بھیجا تھا اور یورپ میں مردوں کو ہیلز میں دیکھ کر اسے ’فوجی صلاحیت‘ کی نشانی کے طور پر دیکھا گیا۔
لوئی 14 فرانس کے بادشاہ تھے، جن کے پاس 72 سال تک حکومت کرنے کا عالمی ریکارڈ موجود ہے (جسے ملکہ الزبتھ سوم بھی نہیں توڑ سکی تھیں)، اور وہ 1643 سے 1715 تک فرانس کے حکمران گزرے۔ تاریخ میں انہیں ہیلز پہننے والی مشہور شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے دورِ حکومت میں یہ عام تھا کہ جتنی ہیلز اونچی اور سرخ ہو گی، پہننے والا اتنا ہی زیادہ طاقتور ہو گا۔
لوئس نے ہیلز پہننے کے حوالے سے دو کام کیے تھے۔ ایک یہ کہ وہ سرخ رنگ کی ہیلز والے جوتے پہنتے تھے اور اس کا ایک مقصد قد میں اضافہ کرنے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ لوگ سمجھیں کہ پہننے والا طاقتور ہے اور ان کے جوتے گندے نہیں ہوتے۔
دوسرا کام لوئس نے یہ کیا تھا کہ ہیلز کو صرف اس زمانے کی اشرافیہ ہی پہنے گی، عام آدمی کو اس کا حق نہیں ہو گا جبکہ سرخ رنگ کا مقصد یہ تھا کہ پہننے والا اتنا طاقتور ہے کہ ہر کسی کو کچل سکتا ہے۔
مردوں نے ہیلز پہننا کیوں چھوڑ دیا؟
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ آخر ہیلز پہننا جب مردوں نے ہی شروع کیا تھا تو یہ رواج مردوں سے خواتین میں کیسے منتقل ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل کاؤ بوائے اینڈ ویسٹرن ہیریٹیج میوزیم کے مطابق 1730 کے بعد مردوں کی جانب سے ہیلز پہننے کا رواج معدوم ہونا شروع ہو گیا اور اس کی وجہ ایک ہی تھی کہ خواتین نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔
مقالے کے مطابق اس وقت مرد سمجھتے تھے کہ چونکہ خواتین نے ہیلز پہننا شروع کر دی ہیں تو اب ہیلز پہننا مردانگی کو چیلنج کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی انقلاب کے بعد مردوں کی جانب سے ہیلز کا استعمال تقریباً ختم ہوگیا۔
لیکن ہوا یہ کہ ہیلز تو نہیں لیکن اسی سے ملتے جلتے کاؤ بوائے جوتے متعارف ہوئے جو ہیلز کی طرح اونچے لیکن ڈیزائن میں قدرے مختلف بنائے گئے۔
یہی کاؤ بوائے جوتے آج بھی پہنے جاتے ہیں اور اس کی وجہ بھی وہی پرانی ہے کہ گھوڑے پر توازن برقرار رکھنا۔ یورپ سمیت مغربی دنیا میں اس کا رواج بہت عام ہے جبکہ گھڑ سوار بھی ہیلز کی جگہ اب کاؤ بوائے جوتے پہنتے ہیں۔
ایک بات اور بھی بتاتے چلیں کہ قصائی بھی ہائی ہیلز پہنا کرتے تھے۔ دی ماڈرن ڈائریکٹری میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق قدیم مصر میں 3500 قبل مسیح میں قصائی ہائی ہیلز جوتے پہنتے تھے۔
قصائیوں کی جانب سے ہیلز پہننے کے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ وہ مذبح خانوں میں جانوروں کے اوپر سے گزرتے تو خون آلود فرش کی وجہ سے ان کے پاؤں اور کپڑے گندے ہونے کا امکان کم ہو جاتا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔