پاکستان میں رواں سال یکم سے 17 اپریل تک ہونے والی بارشیں گذشتہ 30 سال کے مقابلے میں 99 فیصد زیادہ ریکارڈ ہوئی ہیں۔
اس کی تصدیق محکمہ موسمیات کے ترجمان ظہیر احمد بابر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپریل میں ہمیں غیر معمولی بارشوں کو سامنا رہا۔‘
ظہیر نے گذشتہ 30 سال کے ریکارڈ سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یکم سے 17 اپریل 2024 تک ہونے والی بارشیں تاریخی طور پر اوسط بارش سے 99 فیصد زیادہ تھیں۔‘
ملک کے بیشتر علاقوں میں جمعہ 12 اپریل سے شروع ہونے والا بارشوں کا سلسلہ سوموار 17 اپریل تک تھم چکا ہے لیکن محکمہ موسمیات کے مطابق بازشوں کا نیا سپیل آنے کا امکان موجود ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ظہیر کا کہنا تھا: ’موسمیاتی تبدیلی اس غیر یقینی موسم اور معمول سے زیادہ بارشوں کی بڑی وجہ ہے۔ لیکن ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں ہو رہا کہ درجہ حرارت کے اطوار تبدیل ہو رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سید حسنین رضا اینوائرمینٹل ایجوکیٹر ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں پر متعدد تحیقیاتی کام اور ڈاکومینٹریز بھی بنا چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔‘
حسنین نے معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ اب بادلوں میں پانی کے بخارات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جب ان بادلوں کو سازگار درجہ حرارت ملتا ہے تو یہ بھرپور بارش برساتے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں 2022 کے سیلاب کے بعد سے بارشوں کی اوسط میں بے پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بارشوں کے سیلابی ریلوں پر بات کرتے ہوئے بتایا: ’بارش زیادہ برس جاتی ہے اور پانی کو زمین میں جذب ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ کیوں کہ شہری منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے بارش کے پانی کی ماضی کی گزرگاہوں پر کنکریٹ کی سڑکیں اور عمارتیں بن چکی ہے۔‘
انہوں نے اپنے اس موقف کی تائید میں جڑواں شہروں (اسلام آباد/راولپنڈی) کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ ’آج سے پانچ، 10 سال پہلے تک مارگلہ کی پہاڑیوں پر برسنے والی بارش کے پانی کو نالہ لئی پہنچنے تک پانچ سے آٹھ گھنٹے لگتے تھے۔ کیوں کہ راستے میں کنکریٹ کی سڑکیں اور عمارتیں کم تھیں۔
’جس کی وجہ سے پانی زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔ اب صورتِ حال یہ کہ بارش ہونے کے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ہی پانی اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں میں پہنچ جاتا ہے اور ’فلیش فلڈز‘ کا سبب بنتا ہے۔‘
حسنین کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر ایسی ہی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا تو اس سے سطح مرتفع کے علاقے راولپنڈی، اسلام آباد، چکوال اور ڈیرہ غازی خان سیلاب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے مطابق یکم سے 17 اپریل تک جاری رہنے والی بارشوں کے دوران کم از کم 65 اموات ریکارڈ ہوئی ہیں۔
اس دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ خیبر پختونخوا ہے۔