وزیر داخلہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ملک بھر میں بجلی کی اوور بلنگ میں ملوث عملے کے خلاف بلا امتیاز کارروائی اور بجلی چوروں کے خلاف 100 فیصد کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے واجبات کی 100 فیصد ریکوری ممکن نہیں۔
وزیر داخلہ نے اوور بلنگ کو کسی صورت برداشت نہ کرنے اور ملک بھر میں اوور بلنگ میں ملوث عملے کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت دی ہے۔
انہوں نے ایف آئی اے کے افسران کو اوور بلنگ اور بجلی چوروں کے خلاف 100 فیصد کارکردگی دکھانے کو بھی کہا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ سٹینڈ بائے ارینجمنٹ معاہدے کے تحت پاکستان کو چند اہداف حاصل کرنا ہیں جن میں توانائی کے شعبے سے متعلق اصلاحات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کار اداروں کا نظام بہتر کرنے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں اصلاحات کے ذریعے بجلی چوری کو ختم کرنے سے متعلق مطالبات کیے ہیں۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 5200 ارب روپے کے لگ بھگ ہو گیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایف آئی اے کے افسران کو اوور بلنگ اور بجلی چوروں کے خلاف 100 فیصد کارکردگی دکھانے کا کہا ہے۔
انہوں نے ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرنے کا حکم دیتے ہوئے ’بجلی چوری کے واقعات پر قابو پانے کے لیے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حساس علاقوں میں ایف آئی اے کو سکیورٹی فراہم کرنے‘ کا بھی کہا ہے۔
وزیر داخلہ کی جانب سے یہ پہلا ایسا بیان نہیں ہے۔ گذشتہ ماہ بھی انہوں نے ایف آئی اے کو بجلی و گیس چوروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی تاہم متعلقہ اداروں کی جانب سے ان ہدایات پر تاحال کوئی عمل درآمد سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان نے بجلی چوری اور اوور بلنگ کو روکنے کے لیے کریک ڈاؤن کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن وہاں اس کے معاشی اصلاحات پر کیا اثرات ہوں گے؟ کیا صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں بجلی چوری کا پتہ لگانا اور روکنا ممکن ہوگا؟ انڈپینڈنٹ اردو نے معاشی امور کے ماہرین سے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
معاشی امور کے ماہر اور وائس چانسلر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ڈاکٹر ندیم الحق کہتے ہیں کہ ’بجلی چوری‘ کے خلاف ایسی ہدایات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
انہوں نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہماری تحقیق کے مطابق بجلی چوری، جو ایک غلط ٹرم ہے، سات سے آٹھ فیصد ہے اور اس سے زیادہ بڑا مسئلہ بد انتظامی ہے۔ جب ذمہ داران سے خرچے کم نہیں ہوتے تو یہ چوری کا الزام لگا دیتے ہیں۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ ’پہلے یہ بتایا جائے کہ کتنی بجلی چوری ہو رہی ہے؟ کیا بجلی چوری اکیلے کی جاتی ہے یا کسی عہدے دار کے ساتھ مل کر کی جاتی ہے؟ کیا میٹر ریڈر یا ایکس ای این چوری کرواتا ہے یا خود کی جاتی ہے؟ ان سے اپنا نظام ٹھیک نہیں کیا جا سکتا اور اس کی وجہ گورننس کی ناکامی ہے۔‘
ندیم الحق نے حکومتی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے بلوچستان میں بجلی پر سبسڈی دی، اسے چوری کیسے کہا جا سکتا ہے؟ گلگت بلتستان میں بجلی پر سبسڈی کیوں دی گئی؟ پہلے خود سبسڈی دیتے ہیں اور پھر اسے چوری کہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ندیم الحق نے کہا جب لائن لاسز بجلی چوری سے زیادہ ہے تو ایسی صورت حال میں لائن لاس پر کوئی اقدام کیوں اٹھایا نہیں جاتا اور اسے کیوں کم نہیں کیا جاتا؟‘
دوسری جانب معاشی امور کے صحافی صحافی شعیب نظامی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے بجلی کے ریٹ میں اضافہ اور سبسڈی کم کر کے ریکوری ضرور بہتر کی ہے تاہم بجلی چوروں کے خلاف شروع کی گئی کارروائیاں جاری رکھی جانی چاہییں۔
شعیب نظامی کے مطابق: ’پاکستان میں نو منتخب حکومت نے اس سلسلے میں وصولیاں بہتر بنانے کے لیے بھرپور عزم کا اظہار کیا ہے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں بلاامتیاز کارروائیاں کی جائیں اور بجلی کی وصولیوں میں حائل کیسز بھی فوری نمٹائے جائیں۔‘
سینیئر صحافی نے کہا کہ تمام سرکاری ادارے، محکمے، وفاقی اور صوبائی سطح اور خصوصی طور پر پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی بجلی اور گیس کے واجبات وصول کیے جائیں۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس ریکوری مہم میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ صنعت کار، تاجر، دکان دار اور چھوٹی صنعتیں چلانے والوں کو بجلی اور گیس کے بلوں کے معاملے میں ہراساں نہ کیا جائے۔
’اب ایف آئی اے کو بھی ریکوری میں شامل کیے جانے کے بعد یہ اب اور بھی ضروری ہے کہ واجبات کے سلسلے میں ہراسگی کا مکمل خاتمہ ہو۔ ملک میں بجلی کے ریٹ کم کرنے سے بجلی چوری کو روکا جا سکتا ہے، جتنا ریٹ کم ہوگا اتنا ہی صارفین کو بل دینا آسان ہوگا۔‘
شعیب نظامی نے کہا کہ ’صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور آزاد جموں کشمیر میں بجلی کے بلوں کی ریکوری آسان نہیں ہے۔ ان علاقوں میں ایسے دو دراز علاقے ہیں جہاں میٹر ریڈنگ ہر ماہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بل ایک اندازے کے مطابق بھیجے جاتے ہیں، اس لیے اصل واجبات کی ریکوری 100 ممکن نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق: ’بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں امن و امان کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے ان علاقوں میں ریکوری آفیسر بھیجنا، میٹر ریڈنگ کروانا اور بلوں کی ریکوری کرنا یا عدم ادائیگی پر کنکشن کاٹ دینا شدید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔‘