آٹھ فروری کے عام انتخابات میں امیدواروں کی ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے بعد خالی نشستوں پر انتخاب ہو رہا ہے جس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے 21 اپریل کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کیا جاچکا ہے۔
اس حوالے سے ملک بھر میں انتخاب کی تیاریاں جاری ہیں جس میں سب سے زیادہ پنجاب (تین قومی اور 12 صوبائی اسمبلی) کی سیٹوں پر الیکشن ہو رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ سٹیشن بھی قائم کر دیے گئے ہیں اور عملے کی ڈیوٹیاں بھی لگا دی گئی ہیں۔
پنجاب میں بیشتر نشستیں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے جیت کر چھوڑی ہیں جبکہ ملتان میں ایک قومی اسمبلی کی سیٹ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے خالی کی ہے۔
زیادہ نشتوں پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے مد مقابل روایتی حریف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار ہیں۔
تمام نشستوں پر سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیے ہیں۔
ضمنی الیکشن میں تین دن بقایہ ہیں لیکن جن حلقوں میں الیکشن ہو رہا ہے وہاں روایتی جوش وخروش اور سیاسی کارکن زیادہ متحرک دکھائی نہیں دے رہے۔
البتہ مسلم لیگ ن کے رہنما میاں مرغوب احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ ’خالی ہونے والی نشستیں ان کے امیدواروں کی ہیں اور اب بھی انہی کے امیدوار کامیاب ہوں گے۔‘
پی ٹی آئی پنجاب کی صدر یٰسمین راشد کے بقول، ’پہلے بھی عوام نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کامیاب کرایا اب بھی وہ سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں کو کامیاب کرائیں گے۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق، ’یہ ضمنی انتخاب بھی حالیہ عام انتخابات کا ہی عکس ہوگا۔ لیکن عوام میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ لوگ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔‘
کن نشستوں پر کون سے امیدوار مد مقابل ہیں؟
پنجاب کے ضمنی انتخاب میں سب سے سخت مقابلہ ملتان میں این اے 148 پر ہو رہا ہے۔
اس نشست پر یوسف رضا گیلانی نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار بیرسٹر تیمور ملک کو چند سو ووٹوں سے ہرایا تھا۔
اب ان کے مد مقابل یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی قاسم گیلانی ہیں لیکن الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق اس حلقے میں الیکشن 15مئی کو ہوگا۔
لاہور میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کی خالی کی گئی نشست این اے 119 پر ن لیگ کے علی پرویز ملک کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے میاں شہزاد فاروق سے ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی خالی کی گئی قصور سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 132 پر ن لیگ کے ملک رشید احمد خان کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے سردارمحمد حسین ڈوگر سے ہوگا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی لاہور میں خالی کی گئی دو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں میں سے ایک پی پی 158 پر ن لیگ کے چوہدری نواز کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے چوہدری مونس الٰہی ہیں۔
پی پی 164 سے ن لیگ کے رانا راشد منہاس کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے چوہدری یوسف میو سے ہوگا۔
لاہور میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی خالی کی گئی صوبائی نشست 147 پر ن لیگ کے امیدوار سابق ایم این اے ملک ریاض کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمد خان مدنی سے ہے۔
وفاقی وزیر علیم خان کی خالی کردہ نشت پی پی 149 سے استحکام پاکستان پارٹی کے شعیب صدیقی کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے حافظ ذیشان رشید ہیں۔
گجرات میں وفاقی وزیر چوہدری سالک کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 32 پر حکمران اتحاد کے موسیٰ الہی اور سنی اتحاد کونسل کے امیدوار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی میں مقابلہ ہو رہا ہے۔
شیخوپورہ میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کی خالی کی گئی صوبائی نشست پی پی 139 سے ان کے بھائی رانا افضال حسین ن لیگ کے امیدوار ہیں ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے چوہدری اعجاز بھٹی ہیں۔
وزیر آباد کے صوبائی حلقے پی پی 36 پر ن لیگ کے امیدوار عدنان افضل چٹھہ کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے فیاض چٹھہ سے ہوگا۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کی خالی کی گئی نارووال کی صوبائی نشست پی پی 54 میں ن لیگ کے امیدوار احسن اقبال کے بیٹے احمد اقبال ہیں، ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے اویس قاسم ہیں۔
انہیں ن لیگ کے ناراض رہنما دانیال عزیز کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تلہ گنگ سے پی پی 22 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار فلک شیر اعوان کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے حکیم نثار سے ہو رہا ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں ن لیگی رہنما اویس لغاری کی خالی کی گئی صوبائی نشست پر ن لیگ کے امیدوار کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے سیف کھوسہ سے ہوگا۔
پنجاب کے صوبائی حلقے بھکر میں پی پی 93 اور رحیم یار خان میں پی پی 266 پر بھی حکمران اتحاد اور سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں میں مقابلہ ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاسی جماعتوں کا اعتماد اور عوامی ردعمل
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں مرغوب احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں ہماری قیادت کو ہمیشہ سے مقبولیت حاصل رہی ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں بھی پنجاب سے ن لیگ کو بیشتر نشستیں ملی ہیں۔
’ان ضمنی الیکشنز میں بھی ہمارے امیدوار کامیاب ہوں گے۔ زیادہ گہما گہمی اس لیے دکھائی نہیں دے رہی کہ لوگ ضمنی انتخاب میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں بھی الیکشن ہو رہا ہے وہاں پہلے بھی بیشتر سیٹیوں پر ہمارے امیدوار ہی کامیاب ہوچکے ہیں۔ جہاں تک مہنگائی اور حکومتی کارکردگی کا تعلق ہے تو ہماری حکومت نے پنجاب میں ایک ماہ کے دوران ہی کھانے پینے کی اشیا سستی کیں۔‘
میاں مرغوب احمد نے کہا کہ روٹی 20 سے 16 روپے کی ہوگئی ہے جبکہ پیٹرول یا بجلی کی قیمتوں کا تعلق عالمی معاشی حالات سے ہے۔
’اتحادی جماعتوں سے مل کر وفاقی سطح پر بھی معاشی صورت حال بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ لوگوں کو بھی علم ہے۔‘
پی ٹی آئی پنجاب کی صدر یٰسمین راشد نے منگل کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے موقعے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح عوام نے ہمیں عام انتخابات میں کامیابی دلوائی اور ریکارڈ ووٹ کاسٹ کیے۔ وہ اب بھی عمران خان کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں۔
’سنی اتحاد کوسنل کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ پہلے تو آزاد حیثیت میں ہی ہمیں عوامی حمایت ملی اب زیادہ ملے گی۔‘
یٰسمین راشد نے اپنے کارکنوں سے اپیل کی کہ ’وہ نہ صرف ووٹ ڈالنے پر توجہ دیں بلکہ نتائج کے وقت بھی ووٹ کا پہرہ دیں۔ فارم 47 کی پیداوار حکومت ضمنی الیکشن میں بھی دھاندلی سے ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ جن نشستوں پر الیکشن ہو رہا ہے ان میں بیشتر پر پہلے بھی پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے جو دھاندلی سے ہرا دیے گئے۔ اب لوگوں میں حکومتی کارکردگی سے مایوسی مزید پھیلی ہے وہ حالات کی بہتری کے لیے ہمیں کامیاب کرانا چاہتے ہیں۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عام انتخابات میں لوگوں کو امید تھی کہ نئی حکومت آئے گی تو حالات تبدیل ہوں گے۔ لیکن موجودہ صوبائی یا وفاقی حکومت نے ابھی تک موثر کارکردگی نہیں دکھائی جس سے لوگ مایوس ہیں۔ جس طرح عام انتخابات میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو مہنگائی نے متاثر کیا اب صورت حال زیادہ خراب لگتی ہے۔‘
سلمان غنی نے کہا کہ ’تمام سیاسی جماعتیں اب بھی پہلے کی طرح اقتدار میں ہیں لیکن عوام کی مشکلات کم نہیں ہو رہیں۔ یہ سب جماعتوں کے لیے فکر کی بات ہے کہ لوگوں کو جمہوریت کے ثمرات نہیں مل رہے۔ لوگوں کا انتخابی عمل سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے نہ معاشی صورت حال قابو میں ہے نہ گڈ گورننس کی طرف کوئی ٹھوس اقدام نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں لوگ انتخابی عمل میں کیسے دلچسپی لے سکتے ہیں۔‘
ان کے تجزیے کے مطابق:’حکمران اتحاد کے حامی ریلیف نہ ملنے پر پریشان ہیں پی ٹی آئی کے حمایتیوں کو پنجاب یا وفاق میں حکومت بنتی دکھائی نہیں دیتی لہذا دونوں طرف ہی لوگ مخمصے کا شکار ہیں۔‘