تركی میں ’دنیا كی قدیم ترین خمیری روٹی‘ دریافت

ایک نئی کھدائی میں محققین نے ایک عمارت کی باقیات دریافت كیں جہاں انہیں بظاہر ایک قدیم تندور بھی ملا جہاں گندم، جو اور مٹر کے بیج بھی پائے گئے۔

‌روٹی کا ٹکڑا ترکی کے وسطی اناطولیہ خطے میں پتھر کے زمانے کے قدیم مقام كاتلہویوک سے دریافت ہوا ہے (پیکسلز)

ترکی میں ماہرین آثار قدیمہ نے ساڑھے چھ ہزار سال قبل مسیح پرانے آثار سے انسانوں کا بنایا ہوا خمیر والی روٹی كا ٹکڑا دریافت كرنے كا دعویٰ كیا ہے جو اب تک دریافت ہونے والی اپنی نوعیت كی قدیم ترین روٹی ہو سکتی ہے۔

‌روٹی کا ٹکڑا ترکی کے وسطی اناطولیہ خطے میں پتھر کے زمانے کے قدیم مقام كاتلہویوک سے دریافت ہوا ہے جو تقریباً 8,600 سال پرانے ابتدائی ذرعی معاشرے کی سب سے وسیع اور بہترین محفوظ آثار قدیمہ میں سے ایک ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ ترکی کے صوبے قونیہ میں ابتدائی انسانی آباد کاری 6,700 سے 6,500 قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی اور 5,950 قبل مسیح کے قریب زوال كا شكار ہوئی۔

كئی سالوں کے دوران اس مقام پر پائے جانے والے نوادرات اور ڈھانچوں سے پتہ چلتا ہے کہ كاتلہویو کے باشندے ابتدائی کھیتی باڑی کے موجد تھے جو گندم اور جو کی کاشت کے ساتھ ساتھ بھیڑیں اور بکریاں چراتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‌یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار یہ آثار قدیمہ دنیا کے پہلے شہری مقامات میں سے ایک تھا جس میں تقریباً 10,000 قبل مسیح سے 2,000 قبل مسیح کے درمیان اپنے عروج کے زمانے میں 8,000 سے زیادہ افراد رہائش پذیر تھے۔

اس جگہ پر ایک نئی کھدائی میں محققین نے ایک عمارت کی باقیات دریافت كیں جہاں انہیں بظاہر ایک قدیم تندور بھی ملا جہاں گندم، جو اور مٹر کے بیج بھی پائے گئے۔

‌ماہرین آثار قدیمہ کو تندور کے قریب ایک سپنج جیسی نامیاتی باقیات بھی ملیں جس کے مرکز كو انگلی کے نشان کے ساتھ دبایا گیا تھا۔ محققین نے اسے یہاں پکائی ہوئی خمیر شدہ روٹی قرار دیا۔

‌مائیکروسکوپک امیجنگ نے اس بات کی تصدیق کی کہ روٹی كے آٹے میں واقعی خمیر كی وجہ سے بلبلوں کے ساتھ نشاستے كے ذرات موجود تھے۔

‌ترکی کی غازیان تیپ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات صالح کاواک نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ترکی اور دنیا کے لیے ایک دلچسپ دریافت ہے۔

‌اس دریافت سے پہلے خمیر شدہ روٹی کا قدیم ترین ٹكڑے كا تعلق 1,500 قبل مسیح قدیم مصر سے تھا۔

نیکمتین ایرباکان یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ علی عموت ترککان نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ عمارت کو باریک مٹی سے ڈھانپ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے آج تک لکڑی اور روٹی دونوں محفوظ رہیں۔‘

یونیورسٹی کے ایک اور ماہر آثار قدیمہ یاسین رمضان ایکر نے مزید کہا: ’ہمیں معلوم ہوا کہ روٹی کا یہ ٹكرا مسام دار، سپنجی ہے اور اسے پکایا نہیں گیا تھا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا