قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے عقب میں ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے جسے شاہدرہ کہتے ہیں اور یہاں شفاف پانی کے چشمے بہتے ہیں۔ کبھی اسی شاہدرہ کے ساتھ متصل ایک چھوٹے سے گاؤں ماندلہ میں آزادی اور حریت کا ایسا چشمہ پھوٹا تھا جس نے دو سال تک انگریز کا ناک میں دم کیے رکھا۔
یہ 1857 کی جنگ آزادی سے بھی پانچ سال پہلے کی بات ہے جب انگریز کے خلاف پہلی بغاوت راولپنڈی کے ایک گکھڑ راجہ نادر خان آف ماندلہ نے کی تھی۔ انگریز نے اس بے مثل بطلِ حریت کو تاریخ سے مٹا دیا تاکہ یہ کہیں مثالی کردار بن کر قابل تقلید نہ ٹھہرے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک تاریخ کے اس انمول کردار کو اس کا مقام نہیں مل سکا۔
اہلیان پنجاب جس طرح رائے احمد خان کھرل، لالہ لاجپت رائے، بھگت سنگھ، اودھم سنگھ اور جنرل شاہنواز پر فخر کرتے ہیں، اسی طرح انہیں راجہ نادر خان آف ماندلہ پر بھی فخر کرنا چاہیے جو پھانسی پر فخر سے جھول گیا مگر انگریز کے سامنے جھکا نہیں۔
انگریز انتظامیہ نے راجہ نادر خان کی بغاوت کو کیسے بیان کیا؟
راجہ نادر خان آف ماندلہ کون تھا اور اس کےکردار کو انگریز نے تاریخ میں کیوں متنازع بنا کر پیش کیا ہے؟ راولپنڈی کے گزیٹیٔر 1910 میں صرف اتنا تذکرہ آیا ہے کہ ’1853 میں ایک گکھڑ نادر خان ماندلہ کی زیر قیادت ایک شورش برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے رنجیت سنگھ کے بیٹے پشورا سنگھ کے روپ میں ایک سازشی ہندو مرتاض کا ساتھ دیا۔ یہ شورش سنگین صورت حال اختیار کر سکتی تھی مگر ضلعی حکام نے اسے کچل کر نادر خان کو پھانسی دے دی۔‘
ایسٹ انڈیا کمپنی کی پنجاب میں 1850 سے 1853 کی دستاویزات General Report on the Administration of the Punjab Territories کے نام سے 1854 میں کلکتہ سے چھپی تھیں جس میں اس واقعہ کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں:
’واحد واقعہ جو سیاسی حوالے سے اہمیت کا حامل تھا وہ راولپنڈی میں ستمبر 1853 کے آخری ہفتے میں ہونے والی ایک محدود سطح کی بغاوت تھی جو کمپنی کے ابتدائی تین سالوں میں یہاں وقوع پذیر ہوئی۔ لیفٹیننٹ کرنل میک سن پر ہونے والا اچانک حملہ حیران کن تھا جس سے پشاور تک کمپنی کے حلقوں میں بے چینی پھیل گئی۔‘
اس سے یہ قیاس کیا گیا کہ یہاں مقیم مسلمانوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے جو پہاڑی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اس سے نمٹنا ضروری ہے۔ اس امر کی ضرورت خزاں 1853 میں اس وقت بڑھ گئی جب 3000 سے زائد فوجی پشاور میں بیمار پڑ گئے اور حکام نے راولپنڈی سے کمک منگوانے کا فیصلہ کیا۔
دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان نیم پہاڑی علاقہ ہے جہاں ایک دلچسپ قوم گکھڑ آباد ہے۔ روایت کے مطابق وہ سینکڑوں سال سے یہاں کے کرتا دھرتا ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ امیر تیمور کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں صدیوں سے سندھ ساگر دو آب کے علاقے میں ان کی اجارہ داری رہی ہے ۔ وہ آہنی عزم کے مالک بہادر اور سخت جان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قبضے کی صورت میں ان سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھا جائے گا اس لیے ان کے اعلی ٰحسب نسب کا تقاضا ہے کہ وہ ا س کے خلاف مزاحمت کریں۔ کہا جاتا ہے کہ نیم پہاڑی علاوں میں کوہ نمک تک گکھڑوں کے ہزاروں خاندان آباد ہیں۔ ان میں سے ایک زوال رسیدہ خاندان یہ بھی ہے جو ایک باپ اور بیٹے پر مشتمل ہے۔ باپ ایک عمر رسیدہ کسان ہے لیکن بیٹا جوان ہے دونوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ خود سر ڈکیت ہیں اور انہوں نے سکھوں کو ناکے چنے چبواکر سکھوں کی بہت سے جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شروع میں سکھوں نے ان کے خلاف مزاحمت کی مگر دونوں باپ بیٹا نے گزشتہ کچھ سالوں میں کافی زور پکڑ کر انہوں اپنے جتھے بنا لیے ہیں۔ پہلی سکھ جنگ کے دوران دونوں باپ بیٹا اپنے علاقے سے بھاگ کر نیم پہاڑی علاقوں میں چلے گئے تھے جہاں سے انہوں نے گوریلا جنگ شروع کر دی لیکن جب میجر ایبٹ نے ہزارہ کا کنٹرول سنبھالا تو دونوں باپ بیٹا ان کے پاس آئے جس پر انہیں 24 ہزار مالیت سالانہ فائدے کی زمین الاٹ کی گئی۔ جب انہوں نے بغاوت کا اعلان کیا تو وہ ماندلہ میں ہی رہائش پزیر تھے جو راولپنڈی سے 18میل کے فاصلے پر ہے جو نئے پہاڑی سٹیشن مری سے زیادہ دور نہیں ہے۔
نادر خان کے والد شاہ ولی خان نے بڑھاپے میں ایک نوجوان لڑکی سےشادی کر لی جس سے اس کے بچے بھی ہیں۔ اس شادی سے اس کا بڑا بیٹا نادر خان خوش نہیں تھا۔ نادر خان کی طبیعت خود سر قسم کی تھی اس کا باپ سے جھگڑا ہو گیا۔ باپ نے واضح کیا کہ اس کی زندگی میں جائیداد تقسیم نہیں ہو گی لیکن پھر باپ نے اسے آدھی جائیداد دینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
اس فیصلے سے نادر خان کو اطمینان نصیب نہیں ہوا۔ باپ سے پوری جائیداد کا نہ ملنا بھی اس کی بغاوت کی ایک وجہ تھی۔
انہی ایام میں کوہِ نمک میں ایک فقیر مشہور ہوا جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس غیبی طاقت ہے جن میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس کے پاس جو لوگ آتے ہیں ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا پشورا سنگھ جو1848 میں اٹک قلعے میں مارا جا چکا تھا اس کا ایک نوکر بھی اس فقیر کا چیلا بن گیا جس نے مشہور کر دیا کہ پشورا سنگھ مرا نہیں ہے بلکہ اس نے فقیر کا روپ دھارا ہوا ہے اور وہ زندہ ہے۔
نادر خان بھی اس جعلی فقیر کے جھانسے میں آ گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور عادی مجرم اور قاتل جعفر خان بھی شامل تھا جس کا ایک بازو سکھ دور میں ملنے والی سزا کے طور پر کاٹ دیا گیا تھا۔ چنانچہ فقیر، نادر خان اور جعفر خان تینوں کی ایک تکون بن گئی جس نے راولپنڈی اور مری کے علاقوں میں کارروائیاں شروع کر دیں۔
جیسے ہی انگریزوں کو اس منصوبے کی بھنک پڑی فقیر بھاگ گیا اور اس کے چیلے پکڑ لیے گئے۔ فقیر مہاراجہ گلاب سنگھ کے علاقے کی طرف فرار ہو گیا جس کا پیچھا کیا گیا اور راجہ جواہر سنگھ نے اسے پکڑ کر سرکارکے حوالے کر دیا۔ جعفر خان گولڑہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
حکومت کے ایک وفادار سکھ سردار کو نادر خان کے پاس ایلچی بنا کر ماندلہ بھیجا گیا تاکہ وہ ہتھیار ڈالنے کے بدلے نادر خان کی حفاظت اور معافی کی یقین دہانی کرائے مگر اس سردار کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے نہ صرف اس کو مارا پیٹا گیا بلکہ قید بھی کر لیا گیا۔
نادر خان کو خبر ملی کہ جہلم کا کمشنر اپنے فوجی دستے لے کر ماندلہ کی طرف آ رہا ہے جس پر وہ فرار ہو کر اوپر پہاڑی چوٹیوں کی طرف چلا گیا جہاں اسے یقین تھا کہ پہاڑی لوگ اس کی مدد کو آئیں گے جہاں سے اس نے شادی کر رکھی تھی۔ ان لوگوں نے نادر خان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن آ خر کار نادر خان گرفتار کر لیا گیا۔
اس سارے معاملے کو کمشنر جہلم ڈویژن تھارٹن نے جرات مندی، چستی، تندہی اور بہترین تنظیمی صلاحیتوں سے حل کیا جس کی وجہ سے مقامی پہاڑیوں نے نادر خان کا ساتھ نہیں دیا اور نادر خان کو گرفتار کر کے انگریز کے حوالے کر دیا۔
سردار نہال سنگھ چھاچھی کو اس وقت مقامی دیہات کے لوگوں نے رہا کروا لیا جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک سرکاری افسر کو قیدی بنا کر ان کے علاقے سے گزارا جا رہا ہے تو انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ انگریز کو معلوم ہوا تو وہ ان کی بازپرس کرے گا۔ انہوں نے نہال سنگھ کو چھڑوا لیا اور بحفاظت کمشنر جہلم کے سپرد کر دیا۔
گرفتاری کے بعد تمام باغیوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے بلا تاخیر مقدمات چلائے گئے ۔ نادر خان اور اس کے ایک ساتھی کو پھانسی دے دی گئی، جبکہ اس کے دیگر آٹھ ساتھیوں کوچھ سے 14 سال قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
جعلی فقیر کو عمر قید کی سزا ملی۔ جعفر خان گولڑہ قید کے دوران ہی مر گیا۔ اس بغاوت کے تمام مجرم اپنے انجام کو پہنچے جبکہ اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینے والوں کو انعامات اور جاگیریں عطا کی گئیں۔‘
چارلز ایلن کی کتاب Soldier Sahibs جو2001 میں چھپی تھی، اور اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ میں ابتدائی خدمات سر انجام دینے والے برطانوی افسروں کے کارناموں کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں جنرل جان ایبٹ جو ہزارہ ڈویژن کی کمشنر تھے ان کے حوالے سے صفحہ 136 پر لکھا گیا ہے:
’ان کے دور میں سب سے بڑا واقعہ ایک گکھڑ سردار شاہ ولی خان کا ہے جنہوں نے ہمارے چیف ریونیو کلکٹر چھتر سنگھ کو پہاڑی علاقے میں اغوا کر لیا اور 150 پونڈ تاوان لے کر چھوڑا۔ جنرل ایبٹ سمجھتے تھے کہ شاید یہ لوگ اپنی مالی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے جرائم کرتے ہیں۔
’جنرل ایبٹ نے ہنری لارنس سےالتجا کی کہ ان کی زمینیں واپس کر دی جائیں جس پر ہنری لارنس نے ان کی موروثی زمینوں کا کچھ حصہ واگزار کر دیا۔ مگر اس بات کا سکھ گورنر نے بہت برا منایا اور کہا کہ انگریز تو کہتے ہیں کہ ان کے قانون میں سب برابر ہیں اور کسی طاقتور کو کسی غریب پر اور کسی سفید کو کسی کالے پر کوئی برتری نہیں ہے مگر یہاں ایک گکھڑ سردار کو جرم کے بدلے زمین دے کر نوازا گیا ہے۔
’گکھڑ سردار شاہ ولی خان کی معافی کو سال دو سال ہی ہوئے تھے جب میں نے انہیں ایبٹ آباد میں طلب کیا وہ میرے پاس گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تو ان کے ایک ہاتھ پر عقاب بیٹھا ہوا تھا وہ یونانی سرداروں کی طرح وجیہہ دکھائی دیتے تھے۔
’انہوں نے ہری پور کے نواح میں ایک زمین پر دعویٰ کیا کہ وہ ان کی ہے۔ جنرل ایبٹ کہتے ہیں کہ شاہ ولی اتنی وجاہت رکھتے تھے کہ وہ ان سے متاثرہوئے بغیر رہ نہیں سکے۔
’بوڑھے سردار نے اپنی تلوار میرے قدموں میں رکھ کر اطاعت کی مگر اس موقع پر باپ اور بیٹے میں لڑائی ہو گئی۔ نادر خان نے اپنے باپ شاہ ولی سے کہا کہ تلوار اٹھا لو اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’تم سمجھتے ہو کہ یہ زمینیں تمہاری ہیں اور تم ہمیں عطا کرکے ہمیں سرفراز کرتے ہو حالانکہ یہ تو سراسر ہماری اپنی ہیں۔‘
’یہ سن کر میں ہل گیا، میں نے سکون سے اسے مطمئن کرنا چاہا لیکن یہ منظر میں کبھی بھلا نہیں سکا۔‘
نادر خان کے بارے میں لوک روایات
نادر خان ماندلہ جیسے ہیرو کے بارے میں قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش ایک عرصے سے رہی ہے مگر کسی کے پاس کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ تاوقتیکہ میری اس کوشش میں پاکستان گکھڑ فیڈریشن کے عمر افضل کیانی شانہ بشانہ شامل نہیں ہوئے۔
انہوں نے میری ملاقات راجہ نادر خان آف ماندلہ کے پڑپوتے راجہ قاسم سے کرائی۔ راجہ قاسم کو ڈھونڈنے کا مرحلہ بھی صبر آزما تھا۔ میرا رابطہ ان کے ایک قریبی عزیز راجہ سہیل کیانی آف ماندلہ سے ہوا جو اسلام آباد سے سینیٹ کے پہلے رکن پیپلز پارٹی کے راجہ نرگس زمان کیانی کے فرزند ہیں اور بہارہ کہو میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے پاس نادر خان آف ماندلہ کی بندوق اور پستول ابھی تک موجود ہے جو اٹلی کے بنے ہوئے ہیں اور جن پر جعفر برادزر راولپنڈی کی درآمدی مہر بھی ثبت ہے۔
راجہ سہیل کیانی کے پا س زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ وہ ہمیں اپنے ایک چچا زاد بھائی راجہ جہانگیر کیانی کے پاس جی سیون اسلام آباد لے گئے جن کی عمر 84 سال ہے۔
انہوں نے بتایا کہ راجہ نادر خان کی شادی رکھالہ گاؤں میں ہوئی تھی جو گلیات میں ہے۔ ان کے پڑدادا راجہ نادر خان ماندلہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی جن کے نام راجہ علی اکبر خان، راجہ اللہ داد خان اور راجہ فتح خان تھے۔
ان کی اولادوں کے بارے میں ان کے پاس رجسٹر میں پورا شجرہ درج تھا مگر ہمیں ان کی اولاد سے زیادہ خود ان کے بارے میں جاننے کی دلچسپی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے ہمیں ان کے ایک اور لکڑپوتے راجہ قاسم کے پاس راولپنڈی کینٹ بھیج دیا۔
راولپنڈی کینٹ میں جس وسیع و عریض کوٹھی میں وہ رہائش پذیر ہیں وہ کبھی جنرل واجد علی برکی کی رہائش تھی جو عمران خان کے خالو اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید برکی کے والد تھے۔
انہوں نے جو بتایا اس کا خلاصہ نیچے پیش کیا جا رہا ہے:
راجہ نادر خان ماندلہ ادمال گکھڑ تھے جن کا سلسلہ نسب آدم خان سے ملتا ہے جو پوٹھوہار کے حاکم رہے۔ آدم خان کی وفات کے بعد شہنشاہ اکبر نے گکھڑوں میں پوٹھوہار کو تقسیم کیا تو آدم خان کے بیٹے گنگا کے حصے میں تخت پڑی آیا جس میں 242 گاؤں آتے تھے۔
راجہ نادر خان اسی گنگا کی اولاد میں سے تھے۔ جب انگریز لاہور پر قابض ہوا تو راولپنڈی اس وقت سکھ سرداروں کی قبضے میں تھا۔ انگریزوں نے سکھوں کے خلاف گکھڑوں سے مدد طلب کی کیونکہ سکھوں سے پہلے پوٹھوہار کے حاکم وہی تھے۔
اس اتحاد کی شرط یہ تھی کہ سکھوں سے اقتدار لے کر گکھڑوں کو دیا جائے گا جو اس کے اصل وارث ہیں۔ سکھوں کے خلاف آخری اور فیصلہ کن معرکہ راولپنڈی میں روات کے مقام پر 14 مارچ 1849 کو ہوا جس میں گکھڑوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ سکھوں کو شکست ہوئی پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا مگر انگریز اپنے وعدے سے مکر گئے اور انہوں نے گکھڑوں کی کچھ جاگیریں تو واگزار کروا دیں مگر اقتدار حوالے نہیں کیا۔
اس پر راجہ نادر خان نے تخت پڑی چھوڑ کر مارگلہ کی پہاڑیوں سے چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا اور ماندلہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ایک طرف مارگلہ کے درے سے جی ٹی روڈ ان کے نشانے پر آ گیا تو دوسری جانب شاہدرہ کے مقام سے وہ راولپنڈی سے مری جانے والے انگریز فوجی قافلوں کو نشانہ بنانے لگے۔
اس دور میں اینگلو افغان وارز لڑی جا رہی تھیں۔ ادھر مارگلہ جیسا اہم درہ انگریزوں کے لیے دردِ سر بنا ہوا تھا جہاں راجہ نادر خان ماندلہ کے سرفروش گھات لگا کر انگریز فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔
وہ کارروائیاں کرتے اور اوپر پہاڑوں میں گم ہو جاتے۔ انگریز نے انہیں کئی بار جائیداد اور پیسے کی پیشکش کی۔ خود انگریز کمشنر تھارٹن چل کر ان کے پاس گیا مگر انہوں نے گولی چلا دی جو ایک انگریز افسر کو لگی مگر اس نے لوہے کی جیکٹ پہن رکھی تھی اس لیے وہ محفوظ رہا۔
بعد میں انگریزوں اور راجہ نادر خان کے درمیان کھلی جنگ ہوئی جس میں انہیں شکست ہوئی اور وہ پھانسی چڑھ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ملکہ وکٹوریا نادر خان کو پھانسی دینے کی مخالف تھیں کیونکہ سکھوں کے خلاف جنگ میں وہ ان کے اتحادی تھے۔
کمشنر جہلم تھارٹن کو ان سے ذاتی پرکاش تھی اس لیے برطانیہ سے حکم نامہ پہنچنے سے پہلے ہی انہیں شاہ کی ٹاہلیاں راولپنڈی میں کوہلو میں پیل دیا گیا۔ انہیں کوہلو میں پیلنے سے پہلے معافی کا موقع دیا گیا مگر انہوں نے کہا کہ معافی تم مانگو جو ہمارے علاقے پر قابض ہو گئے ہو میں معافی کیوں مانگوں۔
ان کے قریبی ساتھی راجہ لال خان آف پنڈ باڑی بارہ کہو نے کہا کہ نادر خان سے پہلے مجھے پھانسی دی جائے تاکہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے کہ میں نے اس کے ساتھ غداری نہیں کی۔
راجہ قاسم کہنے لگے کہ اس وقت اگر نادر خان معافی مانگ لیتے تو شاید آج وہ پنجاب کے سب سے بڑے جاگیردار ہوتے مگر انہوں نے تاریخ میں زندہ رہنا منظور کیا لیکن آج تاریخ میں ان کا نام تک مٹا دیا گیا ہے۔
راولپنڈی میں کس کس نے نادر خان کے ساتھ غداری کی؟
راجہ نادر خان ماندلہ کے بارے میں سر لیپل ہنری گریفن کی کتاب The Punjab Chiefs میں تین جگہوں پر تذکرہ آیا ہے، پہلی جگہ رئیس اعظم راولپنڈی سردار سجھان سنگھ کے باب میں، دوسری جگہ سردار گوردت سنگھ چھاچھی کے باب میں اور تیسرا چوہدری فتح خان رئیسِ چکری کے باب میں۔
جب راجہ نادر خان باغی ہوا تو انگریزوں نے سردار نہال سنگھ چھاچھی اور سردار سجھان سنگھ کے والد سردار نند سنگھ کو اپنا ایلچی بنا کر مذاکرات کے لیے بھیجا۔ نادر خان نے ان دونوں کو قید کر لیا۔ جبکہ چوہدری فتح خان رئیس چکری کے باب میں جو سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان کا خاندان ہے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ جب نادر خان نے بلوہ کرنے کی کوشش کی تو چوہدری شیر خان نے اس کی اطلاع ایک انگریز افسر کو راولپنڈی آ کر دی۔ اس کے صلے میں اسے 250 روپے سالانہ پنشن عطا ہوئی اور 492 روپے مالیہ میں چھوٹ دی گئی۔
اس کا مطلب ہے کہ نادر خان کی بغاوت چھوٹی سطح کی ہر گز نہیں تھی بلکہ بڑی سطح کی تھی جس کے خلاف جس جس نے انگریز کا ساتھ دیا وہ انعامات کا مستحق قرار پایا اور جو جو نادر خان کے ساتھ تھا وہ معتوب ٹھہرا جن میں گولڑہ کے خان بھی تھے۔ انگریز نے اصل واقعات آج تک نہیں لکھے جس کا مقصد اپنے حامی وفاداروں کی جان کی حفاظت تھی۔
راجہ نادر خان کے پڑپوتے راجہ جہانگیر کیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہوا یوں کہ جب نادر خان نے علمِ آزادی بلند کیا تو ان کا ساتھ جن قبائل نے دیا ان میں مری کے ڈھونڈ اور گولڑے کے خان تھے۔
راجہ نادر خان ماندلہ کی شادی گلیات کے ڈھونڈ عباسیوں کے خاندان میں ہوئی تھی جنہوں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں 3200کنال زمین بھی دی تھی۔ راجہ نادر خان آف ماندلہ کی گرفتاری کیسے ہوئی اس بارے میں تضاد موجود ہے۔
ایک واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنی ماں سے ملنے ماندلہ آئے ہوئے تھے کہ مخبری ہو گئی اور وہ پکڑے گئے۔ اس قیاس میں صداقت اس لیے نہیں ہو سکتی کہ اس زمانے میں انگریز کی عمل داری اس سطح پر نہیں تھی کہ ایک طرف انہوں نے ان کے گاؤں ماندلہ میں جال بچھا رکھا ہو اور راجہ نادر خان کو اس کے بارے میں خبر نہ ہو۔ دوسری روایت یہ ہے کہ چھاپہ مار کارروائیوں کے بعد راجہ نادر خان ایک حریت پسند کے طور پر ابھرے تو علاقے میں انگریز کے حامیوں اور مخالفین میں صف بندی ہو گئی۔
نادر خان اپنے حامیوں کا ایک بڑا لشکر لے کر انگریزی فوج سے مقابلے پر آگئے۔ یہ مقابلہ عین اس جگہ ہوا جہاں راولپنڈی کچہری ہے۔ نادر خان کے ہمراہ ہزار سے زیادہ لوگ تھے جبکہ انگریزی فوج 200 کے قریب تھی۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی، نادر خان کے لوگوں کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود کم تھا اور وہ جدید بھی نہیں تھا جبکہ انگریز فوج توپوں اور مشین گنوں سے لیس تھی جس نے انہیں بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ نادر خان پسپا ہو کر رئیسِ چکری چوہدری شیر خان کے علاقے میں جا پہنچا اور مدد کی درخواست کی۔ چوہدری شیر خان نے مدد کی بجائے مخبری کر کے گرفتار کروا دیا۔
نادر خان کو گرفتار کرنے کے بعد پیشکش کی گئی کہ اب بھی اگر وہ کمپنی کا وفادار رہنے کی حامی بھر لے تو اسے معاف کر کے نوازا جا سکتا ہے مگر نادر خان نے ہر قسم کی پیشکش ٹھکرا دی۔ انگریز نے نادر خان کو سزا دینے کے لیے شاہ کی ٹاہلیاں (کمیٹی چوک) کی جگہ منتخب کی جہاں اسے پھانسی دینے کی بجائے ایک بیلنا لگایا گیا جو بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے آج گنے کا رس نکالنے والی مشین ہوتی ہے۔
نادر خان کو عوام کے سامنے اس بیلنے میں دے کر مار دیا گیا۔ راولپنڈی کے اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر جان نکلسن نے نادر خان کا سر کاٹ کر اپنی میز پر رکھ دیا تھا تاکہ اس کے ملاقاتی ایک باغی کے انجام سے سبق سیکھ سکیں۔
راولپنڈی کے اس عظیم ہیرو کو پوٹھوہار کے صوفی بزرگ بری امام کے احاطے میں اپنے ساتھی راجہ لال خان کے ساتھ دفن کیا گیا۔ دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ تھیں مگر گذشتہ سالوں میں جب بری امام مزار کی توسیع کی گئی تو اس بے مثال بطلِ حریت کی قبر مٹا دی گئی کیونکہ آج کے حکام یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ یہاں وہ عظیم حریت پسند دفن ہے جو دھرتی پر قربان ہو گیا مگر غلامی قبول نہیں کی۔
راجہ نادر خان ماندلہ کی یادگاری تختی ان کے گاؤں ماندلہ میں پاکستان گکھڑ فیڈریشن نے نصب کروائی ہے جس پر ان کے بے مثال کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔