صحافت میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال سے اخلاقی اور ادارتی چیلنج سر اٹھانے لگے۔
مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے صحافیوں کو نئے اخلاقی اور ادارتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
اطالوی شہر پیروگیا میں انٹرنیشنل جرنلزم فیسٹیول میں اٹھائے گئے سوالات میں نیوز رومز کی مدد کرنے یا انہیں مکمل طور پر تبدیل کرنے میں مصنوعی ذہانت کے کردار پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔
انسانی ذہانت کی نقل کرنے والے اے آئی ٹولز دنیا بھر کے نیوز رومز میں صوتی فائلز کو نقل کرنے، کسی رپورٹ کے متن کا خلاصہ کرنے اور ترجمہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔
2023 کے اوائل میں جرمنی کے میڈیا گروپ ’ایکسل سپرنگر‘ نے یہ اعلان کرتے ہوئے اپنے دو اخبارات میں ملازمتوں میں کٹوتیاں کر دیں کہ مصنوعی ذہانت اب کچھ صحافیوں کی جگہ لے رہی ہے۔
جنریٹو اے آئی نامی ٹول عام زبان میں ایک سادہ سی ریکوسٹ پر متن اور تصاویر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ آسانیوں کے ساتھ ساتھ خدشات کو بڑھا رہا ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ آوازوں اور چہروں کو اب پوڈ کاسٹ بنانے یا ٹیلی ویژن پر خبریں پیش کرنے کے لیے کلون کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے سال فلپائنی ویب سائٹ ریپلر نے اپنے طویل مضامین کو مزاحیہ، گرافکس اور یہاں تک کہ ویڈیوز میں تبدیل کرکے نوجوان سامعین میں مقبولیت حاصل کر لی۔
میڈیا کے پیشہ ور اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اب ان کو ایسے کاموں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جس میں اضافی خوبیاں شامل ہوں۔
گوگل نیوز کے جنرل مینیجر شیلیش پرکاش نے پیروگیا میں ہونے والے ایونٹ میں بتایا کہ ’آپ وہ ہیں جو اصل چیزیں کر رہے ہیں اور ہم جو ٹولز تیار کرتے ہیں وہ آپ کے معاون ثابت ہوں گے۔‘
2022 کے آخر میں چیٹ جی پی ٹی کے منظر عام پر آنے کے بعد سے جنریٹو اے آئی کی لاگت کم ہو گئی ہے کیوں کہ امریکی سٹارٹ اپ اوپن اے آئی کے ڈیزائن کردہ ٹولزاب چھوٹے نیوز رومز میں قابل رسائی ہیں۔
کولمبیا کے تحقیقاتی آؤٹ لیٹ کیوسچن ریپبلک نے انجینیئرز کو ایک ایسا ٹول تیار کرنے کا کام دیا ہے جو اس کے آرکائیوز کو تلاش کر سکے اور بریکنگ نیوز کی صورت میں متعلقہ پس منظر اور متعلقہ معلومات تلاش کر سکے۔
ایمسٹرڈیم یونیورسٹی کے پروفیسر نتالی ہیلبرگر نے کہا کہ بہت ساری میڈیا تنظیمیں لینگویج ماڈل نہیں بنا رہی ہیں جو اے آئی انٹرفیس کا مرکز ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ’محفوظ اور قابل اعتماد ٹیکنالوجی‘ کے لیے ان کی ضرورت ہے۔
ایوری پکسل جرنل کے پچھلے سال کے ایک اندازے کے مطابق اے آئی نے ایک سال میں اتنی ہی تصاویر بنائی ہیں جتنی حقیقی فوٹوگرافرز 150 سالوں میں بنا سکتے ہیں۔
ادارے نے سنگین سوالات اٹھائے ہیں کہ خبروں کو مواد سے بھرے سمندر سے کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے جن میں ڈیپ فیکس نیوز بھی شامل ہیں۔
میڈیا اور تکنیکی تنظیمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں خاص طور پر ’کولیشن فار کنٹینٹ پرووینس اینڈ ایتھینٹیسٹی‘ کے ذریعے جو مشترکہ معیار قائم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی میں ایڈیٹوریل انوویشن اور مصنوعی ذہانت کے لیے نامزد گلوبل نیوز ڈائریکٹرسوفی ہیوٹ نے کہا کہ ’ہمارا اصل کام خبریں جمع کرنا اور آن دی گراؤنڈ رپورٹنگ ہے۔ ہم (مستقبل میں بھی) انسانی رپورٹرز پر بھروسہ کریں گے اگرچہ مصنوعی ذہانت اس میں مدد دے سکتی ہے۔‘
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے گذشتہ سال اے آئی اور صحافت کے حوالے سے ’پیرس چارٹر‘ جاری کیا تھا۔
امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں عالمی میڈیا، جدت اور انسانی حقوق کی لیکچرر آنیا شیفرین نے کہا: ’پیرس چارٹر کے بارے میں مجھے واقعی ایک چیز پسند آئی اور وہ تھی شفافیت پر زور۔ پبلشرز کو کس حد تک یہ بتانا پڑے گا جب جب وہ جنریٹو اے آئی استعمال کر رہے ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوامی نشریاتی ادارے سویڈش ریڈیو میں اے آئی اور خبروں کی حکمت عملی کے سربراہ اولے زکریسن نے کہا کہ ’ایک سنجیدہ بحث چل رہی ہے کہ کیا آپ کو مصنوعی ذہانت پر مبنی مواد کو مارک کرنا چاہیے یا لوگوں کو آپ کے برانڈ پر بھروسہ کرنا چاہیے؟‘
مسلسل ترقی پذیر ٹیکنالوجی کے پیش نظر ضابطہ اخلاق ابتدائی مراحل میں ہے۔
رواں سال مارچ میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک فریم ورک کا قانون پاس کیا جس کا مقصد اے آئی ماڈلز کو جدت روکے بغیر ریگولیٹ کرنا ہے جبکہ گائیڈ لائنز اور اس حوالے سے چارٹر نیوز رومز میں تیزی سے عام ہو رہے ہیں۔
کوئنٹلین میڈیا نامی انڈین تنظیم کے سربراہ ریتو کپور نے کہا کہ ان کے ادارے میں ہر تین ماہ بعد مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ادارتی رہنما خطوط کو اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کیا کہ ان کے ادارے کے مضامین میں سے کوئی بھی مصنوعی ذہانت کے ٹول سے نہیں لکھا جا سکتا اور اے آئی سے تخلیق کردہ تصاویر حقیقی زندگی کی نمائندگی نہیں کر سکتیں۔
دسمبر میں نیویارک ٹائمز نے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے لیے اوپن اے آئی اور اس کے اہم سرمایہ کار مائیکروسافٹ پر مقدمہ دائر کیا تھا۔
اس کے برعکس دیگر میڈیا اداروں نے اے آئی کے ساتھ معاہدے کیے ہیں جن میں ایکسل سپرنگر، امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس، فرانسیسی روزنامہ لی موندے اور ہسپانوی گروپ پریسا میڈیا شامل ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے جرنلزم سکول کی پروفیسر ایملی بیل نے وضاحت کی کہ میڈیا انڈسٹری میں وسائل کی تنگی کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجی پرکشش ہے۔