روئیداد خان: اسٹیبلشمنٹ کے اہم ستون

طاقت ور حلقوں سے ان کی قربت کو جمہوریت پسند طبقے ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں مگر اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک کے بااثر ترین بیوروکریٹس میں سے ایک تھے۔

روئیداد خان کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن تھا (روئیداد ڈاٹ کام)

پاکستان کے پانچ سربراہان مملکت اور تین وزرائے اعظم کے ساتھ اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے روئیداد خان افسر شاہی کی طاقت، خیالات اور طور طریقوں کی مجسم تصویر تھے۔

خیبرپختونخوا اور سندھ میں بطور چیف سیکرٹری تعیناتی ہو یا پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر، یا وزارت اطلاعات، سیاحت اور داخلہ میں سیکٹری کی حیثیت سے کام کرنے کا تجربہ، انہوں نے ملکی سیاست کے کئی ادوار کو قریب سے دیکھا۔

طاقت ور حلقوں سے ان کی قربت کو جمہوریت پسند طبقے ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں مگر اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک کے بااثر ترین بیوروکریٹس میں سے ایک تھے۔

سروس کے ابتدائی سال، ’کرنل صاحب نے آرڈر کیا بازار میں ایک بھی مکھی نظر نہ آئے‘

ایوب خان کے دور میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر افسر شاہی کے طاقتور ترین نمائندے تھے۔ ان دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس دوران خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے دو بیوروکریٹ طاقت کے ایوانوں میں تیزی سے اپنی جگہ بنانے لگتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام غلام اسحاق خان تھا اور دوسرے تھے روئیداد خان۔ دونوں کا تعلق مردان سے تھا اور ایک ہی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

 1949 میں سول سروس جوائن کرنے والے روئیداد خان یوسف زئی قبیلے سے تھے۔ 1940 میں ایف سی کالج لاہور میں آئے تو بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ انگلش لٹریچر میں بی اے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ ’پاکستان: خواب پریشاں‘ میں وہ لکھتے ہیں ’ایف سی کالج نے مجھے سیاست کی سوجھ بوجھ دی، علی گڑھ نے پاکستان سے روشناس کرایا، میں ایک مارکسسٹ سے محب وطن بن گیا۔‘

وہ اپنے سفر کو مڈل کلاس کی افسر شاہی میں انٹری کے ابتدائی واقعات میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ابتدا میں اردو سپیکنگ بیوروکریٹ تھے جو اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم ’آکسفورڈ سے نہیں مقامی اداروں سے پڑھے تھے۔ تب افسر شاہی زمینی خداؤں کی طرح دیکھی جاتی تھی، اس لیے اس کا حصہ بننے کے بعد پس منظر خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔‘

وہ ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ تب ایک جملہ بہت عام تھا، ’سیاست دان کی نوکری کچی ہے، پولیس کی نوکری پکی ہے۔‘

اپنی پکی نوکری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ صحافی احمد اعجاز کو ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں۔

’جب مارشل لا لگا میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ مجھے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے فون آیا کہ آپ نو بجے سپرانٹینڈنٹ پولیس کے ہمراہ بریگیڈ ہیڈکوارٹر آ جائیں۔ ہم دونوں جا کر بیٹھ گئے۔ ہمیں کہا گیا کہ غیر قانونی اسلحہ جمع کرو۔ ہر شے کی قیمت متعین کرو تاکہ لوگوں کو مناسب نرخوں پر کھانے پینے کی اشیا ملیں۔ وہاں جو کرنل صاحب تھے، اُنہوں نے آرڈر جاری کیا کہ بازار میں ایک بھی مکھی نظر نہیں آنی چاہیے۔ یہ کھانے پینے کی دکانیں جہاں مکھیاں ہوتی ہیں،ان کو ختم کرو۔ ہم اس کی باتیں لکھتے رہے۔ ہمیں احساس ہوگیا کہ ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے جو لمبا عرصہ چلے گا۔‘

یحییٰ خان کی مجیب کو دھمکی، ’یار ایمان تازہ ہو گیا‘

روئیداد خان پشاور کے ڈپٹی کمشنر تھے،  1970 کے انتخابات سے پہلے انہیں پی ٹی وی کا ایم ڈی مقرر کیا گیا۔ تب پی ٹی وی کتنا اہم ادارہ تھا ہم آج تصور بھی نہیں کر سکتے۔ طاقتور حلقوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ پوزیشن دی مگر ان کی والدہ کو پسند نہ آئی۔ ’پاکستان: خواب پریشاں‘ میں وہ لکھتے ہیں ’میری والدہ کو بہت دکھ ہوا، وہ کہنے لگیں، ان کے پاس میرے بیٹے کو دینے کے لیے یہی گویوں والی نوکری رہ گئی تھی؟‘ انہوں نے جواب دیا ’میں تو اس نوکری میں بڑا خوش ہوں، اماں کو اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آیا۔‘

 مختلف انٹرویوز کے دوران روئیداد خان کہہ چکے ہیں کہ وہ سانحہ مشرقی پاکستان کا اولین ذمہ دار یحییٰ خان، پھر بھٹو اور اس کے بعد مجیب الرحمٰن کو سمجھتے ہیں۔ اپنی کتاب میں بھی انہوں نے یہی تاثر دیا۔ مگر دیگر بااثر بیوروکریٹس کی طرح انہیں بھی یہ خیال ریٹائرمنٹ کے بعد آیا۔ تب روئیداد خان کیسے  تھے؟ اس کی جھلک معروف بیوروکریٹ اور معراج خالد کے پرنسپل سیکرٹری تعینات رہنے والے امین اللہ چودھری کی گواہی سے ملتی ہے۔

اپنی کتاب ’پولیٹیکل ایڈمنسٹریٹرز: دی سٹوری آف دی سول سروس آف پاکستان‘ میں امین اللہ چودھری لکھتے ہیں، ’یحیی خان نے اپنی مشہور تقریر میں مشرقی پاکستان میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور مکمل پریس سنسر شپ کے نفاذ کا اعلان کیا۔ جب صدر نے مجیب کو غدار قرار دیتے ہوئے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کیا تو روئیداد کا چہرہ چمک اٹھا۔ روئیداد نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’یار ایمان تازہ ہو گیا۔‘

جب روئیداد خان نے ’درست گردن‘ کا انتخاب کیا

ضیاالحق کے دور میں روئیداد خان مرکزی سیکرٹری داخلہ تھے۔ سپریم کورٹ سے بھٹو کی اپیل مسترد ہو گئی۔ عدالت نے رحم کی اپیل کے صدارتی اختیارات کا اشارہ کیا۔ 

روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یکم اپریل 1979 کو وزارت قانون کے جوائنٹ سیکریٹری ارشاد خان اور جنرل کے ایم عارف بھٹو کیس کی سمری لے کر ضیا الحق کے پاس گئے۔‘

 ارشاد خان نے انھیں بتایا کہ ’جب وہ سمری لے کر صدر کے پاس گئے تو صدر نے رحم کی عرضداشت کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور بغیر پڑھے ہی مسترد کر دیا۔‘

مشہور ہے کہ یہ سمری انہوں نے تیار کی تھی مگر اپنی کتاب میں وہ اس کا ذکر گول کر گئے۔

کسی ستم ظریف نے لکھا کہ ضیا الحق کے قریبی لوگ جانتے تھے قبر ایک اور گردنیں دو ہیں۔ روئیداد خان نے درست گردن کا انتخاب کیا۔

 فوج سے قریبی تعلقات کی وجہ سے بھٹو نے روئیداد خان کو کلیدی عہدوں سے دور رکھا۔ ان کے بقول انہیں ’کھڈے لائن‘ لگانے کے لیے سیکرٹری سیاحت بنایا گیا لیکن یہ مزے دار تجربہ رہا۔ ’میں نے پاکستان کے کئی خوبصورت علاقے اس دوران دیکھے۔‘

بعض حلقوں کے خیال میں بھٹو نے اس لیے انہیں کھڈے لائن لگایا کیوں کہ وہ جمہوری حکومت کو اندر سے کمزور کر رہے تھے۔

بے نظیر کے خلاف کرپشن کیسز

 1988 میں روئیداد خان کے ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو ان کے پرانے دوست غلام اسحاق خان صدرِ پاکستان بن چکے تھے۔ انہوں نے وزارت داخلہ میں سیکرٹری جنرل کا خصوصی عہدہ تخلیق کیا اور اپنے  محب وطن سکول فیلو کو اس پہ براجمان کر دیا۔

1990 میں انہیں وفاقی وزیر برائے احتساب مقرر کیا گیا۔ احتساب کے مقاصد واضح تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ خود بتاتے ہیں کہ ’صدر بے نظیر کو سیاست سے آؤٹ کرنا چاہتے تھے۔‘ روئیداد خان نے اپنی ٹیم کی مدد سے بے نظیر اور زرداری کے خلاف پانچ کرپشن کیسز کا سراغ لگایا اور صدر کو بتایا کہ ’عدالتی کارروائی میں دو ماہ سے زیادہ نہیں لگنا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اپنے ایک انٹرویو میں وہ عدالت کی سست روی کو تنقید کا نشانہ بناتے اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ’دو سال بعد چھ میں سے کسی بھی کیس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔‘

ایک محب وطن کی طرح وہ بے نظیر بھٹو کو ’سیکورٹی رسک‘ سمجھتے تھے جس کا اظہار کرنے میں انہوں نے کبھی پیش و پس سے کام نہ لیا۔

ایوب خان کے بہترین دور کو یاد کرنے والے عمران خان کے پرستار

قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر کی طرح روئیداد خان کو بھی فوج سے قریبی تعلقات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر وہ اسے غلط نہیں سمجھتے۔ ان کے مطابق ’ہم مارشل لاء کی مخالفت یا اس کے خلاف مزاحمت ضروری نہیں سمجھتے۔ یہ ہمارا کام نہیں تھا۔ ہمارا کام اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنا تھا۔‘

ان کے خیال میں ایوب خان کی حکومت پاکستان کا بہترین دور تھا جبکہ بھٹو نے سول سرونٹس کو کمزور کیا۔ ’بھٹو نے 14 سو ملازمین کو برطرف کر دیا۔ یہاں تک کہ چیف سیکرٹری بھی خوفزدہ تھا کہ کب اسے گھر بھیج دیا۔‘ وہ ملول لہجے میں کہا کرتے تھے کہ ’بیوروکریٹس سیاستدانوں کے تابع ہو گئے۔‘

 جب تک طاقت ور حلقے نواز شریف کے مداح رہے روئیداد خان بھی ان کی تعریفیں کرتے نظر آئے۔  مگر اب وہ عمران خان کے جنونی پرستار بن چکے تھے۔ وہ عمران خان کو پاکستان کی تمام مشکلات کا حل تصور کرتے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان