گذشتہ کئی برسوں سے بحیرہ روم کے ساحلوں کے قریب غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن کی کشتیاں ڈوبنے کی خبریں سرخیوں میں آ رہی ہیں۔ حالیہ واقعات میں رواں ہفتے 16 پاکستانی یورپ جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے، جب کہ گذشتہ ماہ بھی 13 افراد سنہری خوابوں سمیت سمندر برد ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ 40 افراد کو انسانی سمگلروں نے قتل کر دیا۔
صرف گذشتہ دسمبر سے رواں سال فروری کے دوسرے ہفتے تک کم از کم چار کشتیاں گنجائش سے زیادہ مسافروں کے بوجھ سے چٹانوں سے ٹکرا کر ڈوب چکی ہیں۔ رواں سال اب تک 100 سے زیادہ تارکین وطن اس کوشش میں اپنی جانوں کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ سینکڑوں کو بچا لیا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود زیادہ تر لوگ وہیں اسی ساحل پر چھپے رہتے ہیں تاکہ دوبارہ یورپ جانے کی کوشش کر سکیں۔
گذشتہ سال جون میں ایک ہی حادثے میں 300 پاکستانی موت کی آغوش میں چلے گئے جن میں سے چند ہی لاشیں برآمد ہو سکیں۔ رواں ماہ 54 افراد اور دسمبر میں مزید 40 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر بار حکومت انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی کے دعوے کرتی ہے اور میڈیا میں بیانات دیے جاتے ہیں کہ یورپ اور شمالی امریکہ میں سمگلنگ کے بین الاقوامی نیٹ ورک کو چلانے والے پاکستانی ایجنٹس کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے۔
چند افراد کو گرفتار کر کے حکومت کی جانب سے کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن یہ المیے کبھی رُکتے نظر نہیں آتے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ان 50 اہلکاروں کو برطرف کیا جو مسافروں کی جانچ پڑتال کے ذمہ دار تھے لیکن اس کے باوجود سمگلروں اور سرکاری اداروں کے درمیان ملی بھگت ختم نہ ہو سکی۔ اگر ایسا ہوتا تو غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن کے حادثات میں واضح کمی آ چکی ہوتی۔
کسی کے پاس درست اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد گرفت میں آئے بغیر کامیابی سے دوسرے ممالک پہنچ جاتے ہیں تاہم اس رجحان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف جنوری کے مہینے میں اکیلے لاہور ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے ڈھائی ہزار مسافروں کو اس شبہے میں روک لیا کہ وہ سعودی عرب جا کر بھیک مانگنے یا بحیرہ روم کے راستے یورپ جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
وطن چھوڑنے کا یہ رجحان محض معاشی وجوہات تک محدود نہیں بلکہ سماجی عوامل اس میں زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ زیادہ تر غیر قانونی تارکینِ وطن کا تعلق وسطی پنجاب کے چند مخصوص اضلاع سے ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ یا تو ڈوب چکے ہیں یا بچا لیے گئے ہیں۔
ان افراد کا تعلق امیر گھرانوں سے نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود وہ سمگلروں کو اپنی بچت سے لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں، سفر کے اخراجات کے لیے رقم جمع کرتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر یورپ پہنچنے کے لیے خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔
منطقی طور پر سوچا جائے تو کوئی شخص اپنی زندگی کو اتنے بڑے خطرے میں کیوں ڈالے گا؟ وہ جانتے ہیں کہ انہیں پکڑا جا سکتا ہے، جیل میں ڈالا جا سکتا ہے، راستے میں قتل کیا جا سکتا ہے، سمندر میں ڈوب کر مرنے کا امکان ہو یا پھر ان کے خاندان سے مزید رقم نکلوانے کے لیے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ یہ خطرہ مول لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یورپ، خصوصاً سکینڈینیوین ممالک، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ میں وسطی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والے ’نئے نئے دولتیوں‘ کے قصے کہانیاں یہاں کے نوجوانوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس خطے میں بڑے بڑے خالی بنگلے، مہنگی گاڑیاں اور سکیورٹی گارڈز کے ساتھ شاندار طرزِ زندگی عام نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی نئی نسل بھی شادی بیاہ اور سماجی تقریبات پر بے تحاشا دولت خرچ کرتی ہے اور معاشرتی کامیابی کو فضول خرچی سے جوڑ لیا گیا ہے۔
ان لوگوں کی دولت کمانے کی کہانیاں اکثر مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں لیکن یہ کہانیاں مزید لوگوں کو یورپ جانے کے لیے خطرہ مول لینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
یہ سب کچھ درحقیقت ایک ریاستی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے خاص طور پر جب بات سرکاری اہلکاروں اور انسانی سمگلروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہو۔
اگر مقامی سطح پر دیکھا جائے تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کون سے افراد انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور وہ کس طرح معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں لیکن یہ مسئلہ صرف اس وقت خبروں میں آتا ہے جب کوئی بڑا سانحہ پیش آتا ہے اس کے بعد وقتی کارروائیاں کی جاتی ہیں، چند افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن جب ایک اور کشتی ڈوبتی ہے تو وہی کہانی دوبارہ دہرائی جاتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔