سپریم کورٹ آف پاکستان میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف منگل کو اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن آرہا تھا۔‘
آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
آج سماعت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل دیے۔
دوران سماعت ایک موقعے پر جسٹس نعیم اختر افغان نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن پر ریمارکس دیے کہ ’سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی۔‘
دوسری جانب آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن آرہا تھا، یہ تو ہماری حالت تھی۔‘
سماعت کے آغاز میں جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’1962 کے آئین کے وقت ایوب خان کا دور تھا، اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟‘ وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ’اس وقت بھی بنیادی حقوق اصل میں دستیاب نہیں تھے، عام شہریوں کی حد تک کرمنل دفعات پر ٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے، آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھیں، جو مسلح افواج کے حوالے سے تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’یہاں ’تعلق‘ کی اصطلاح سے کیا مراد ہے؟ ٹو ڈی میں عام شہریوں کا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟‘ جس پر عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ’ٹرائل دفعات پر نہیں، سٹیٹس پر ہو گا۔ 103 ایسے ملزمان ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ’محرم علی کیس اور راولپنڈی بار کیس میں دہشت گردی کی دفعات تھیں، فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ان کی سکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہو گی، ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟ جہاں ملٹری کی شمولیت ہو، وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔‘
دوارن سماعت وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے کہ افسر کا حکم زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔‘
اس موقعے پر جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے: ’آپ کہہ رہے ہیں کہ فوج دورانِ جنگ ہی جواب دے سکتی ہے، گھر پر حملے کا جواب نہیں دے سکتی؟‘ جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا: ’ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کر سکتی ہے۔ کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوا تو دفاع کیوں نہیں کیا گیا؟‘
دورانِ سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے عمران خان سے متعلق وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ایک بات کر رہے ہیں، آپ کے موکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کا موکل کہتا ہے کہ جن کے پاس اختیارات ہیں، ان سے بات کروں گا۔ یہ سیاست کی نہیں حقیقت کی بات ہے۔‘
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے: ’کیا کسی رکن اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟‘
جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا: ’کمرہ عدالت سے جو باہر ہے، اس پر بات نہیں کروں گا۔‘
عزیز بھنڈاری نے مزید کہا کہ ’جرم کی نوعیت پر نہیں ملزم کے سٹیٹس کو مدنظر رکھ کر فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو گا۔ ملزم کا سٹیٹس دیکھنا ہوگا کہ وہ مسلح افواج سے تعلق رکھتا ہے یا عام شہری ہے۔ امریکی عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ملزم کے سٹیٹس کو دیکھ کر ٹرائل پر فیصلہ دیا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے: ’آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق تو گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر عام شہریوں کا ٹرائل ہوسکتا ہے، گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ٹرائل کا مطلب ملزم کا سٹیٹس نہیں، جرم دیکھ کر ٹرائل ہوتا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ ’آپ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنے لوگوں تک تو یہ اختیار استعمال کرسکتی ہے مگر عام شہریوں کی حد تک نہیں، لیکن اگر فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کر سکتی تو کسی کے لیے بھی نہیں کرسکتی۔‘
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا: ’آئین کے آرٹیکل آٹھ کی ذیلی شق تین کے تحت مسلح افواج کے لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں، جسٹس منیب اختر نے تفصیلی فیصلے میں یہی بات کی ہے۔‘
اس موقعے پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اگر مسلح افواج میں لوگ آئین کے آرٹیکل 8(3) کے تحت آتے ہیں تو انہیں آرٹیکل 10 اے بھی حاصل نہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹرائل پھر چاہے جہاں مرضی ہو۔‘
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں انڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے، انڈیا میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’ہمارے سامنے کلبھوشن یادو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، اپیل کا یہ حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔‘
وکیل عزیر بھنڈاری نے مزید کہا: ’آج بھی بانی پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ہو رہا ہے، فیئر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا۔‘
یہ سن کر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کر جانے دیتے تو خط کہاں سے آ جاتے ہیں؟‘ جسٹس مسرت ہلالی نے بھی ریمارکس دیے کہ ’ہاں ہاں آج کل تو خطوط کا تنازع بھی چل رہا ہے۔‘
وکیل نے دلائل مکمل کرتے کہا کہ ’کورٹ مارشل میں تو موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، نہ جج کی کوئی معیاد، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ ہوتی ہے، سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے، ہائی کورٹ میں رِٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر وہ محدود ہوتا ہے۔‘
آج سماعت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جبکہ بدھ کو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی اپنے دلائل دیں گے۔