لاہور پولیس نے منگل کو بتایا کہ ماڈل ٹاؤن کے رہائشی ڈاکٹر مختار حسین کو اغوا کر کے پانچ لاکھ روپے بطور تاوان وصول کرنے والے چھ پولیس اہلکاروں میں سے تین کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ باقیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے ایک بیان میں کہا کہ ’ملزمان کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
’قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔ پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی قانون کے مطابق سزا وجزا کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ پولیس کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔‘
ڈاکٹر مختار حسین نے انڈپیںڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا انہیں گھر سے اغوا کرنے والوں نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایک ہی رات میں ان کے گھر سے رہائی کے عوض چار لاکھ منگوائے گئے، ان سے اے ٹی ایم کے ذریعے ایک لاکھ روپے نکلوائے اور پھر (کسی بھی طرح کی قانونی) کارروائی پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر کئی گھنٹوں بعد رات گئے ویرانے میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔‘
ڈاکٹر مختار کو’اغوا‘ کے بعد کہاں لے جایا گیا؟
ڈاکٹر مختار حسین کے بقول وہ برکت مارکیٹ میں نجی کلینک چلاتے ہیں ہیں اور ان رہائش ماڈل ٹاؤن ڈی بلاک میں ہے۔
’نو فروری کو رات ساڑھے 11 بجے کے قریب دروازے کی گھنٹی بجی، باہر نکلا تو تین مسلح پولیس اہلکار وردی سمیت آئے اور اندر گھس گئے۔ انہوں نے چہرے پر نقاب کر رکھے تھے۔
’(انہوں نے) اندر گھس کر بیڈ روم کی تلاشی لی، تین موبائل فون بھی قبضے میں لے لیے۔ مجھے کہا کہ چلو ایس ایچ او صاحب بلا رہے ہیں۔
ڈاکٹر مختار حسین کے مطابق: ’مجھے باہر لے کر آئے تو باہر تین مزید لوگ اور موجود تھے۔ انہوں نے مجھے موٹر سائیکل پر بیٹھایا اور چل پڑے۔‘
’میرا خیال تھا کہ وہ مجھے گارڈن ٹاؤن تھانے لے کر جا رہے ہیں، لیکن انہوں نے فیروز پور روڑ سے جنرل ہسپتال کی طرف رخ کر لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں نے پوچھا کہاں لے کر جارہے ہو؟ کون سے تھانے جانا ہے؟ انہوں نے کہا کہ چپ کر کے بیٹھو گولی مار دیں گے۔ رنگ روڑ کے پاس ویرانے میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر دی۔ دن میں کتنے پیسے کماتے ہو، اپنے والدین کا نمبر دو، تمہارے خلاف ایف آئی آر درج کرنی ہے۔‘
ڈاکٹر مختار کے مطابق انہیں چھوڑنے کے لیے پہلے 10 لاکھ روپے بطور تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔ ’میں نے کہا کہ گھر میں چار لاکھ روپے تک ہوں گے۔ دو پولیس اہلکار میرے گھر لڑکے سے پرس لے کر آئے۔
’اس کے بعد مجھے میرے پرس سے اے ٹی ایم نکال کر پیسے نکلوانے کا کہا۔ رات اڑھائی بجے کے قریب چونگی امرسدھو میزان بینک برانچ کی اے ٹی ایم مشین سے گن پوائنٹ پر 50,50 ہزار دو بار نکال لیے۔‘
انہوں نے کہا کہ پانچ لاکھ روپے حاصل کرنے کے باوجود وہ ’میرے موبائل فون سے بینک ایپ کھولنے کی کوشش کرتے رہے۔ صبح پونے تین بجے مجھے کاہنہ والی سائیڈ پر لے جاکر ویڈیوز بنائیں، شناختی کارڈ کی تصاویر لیں کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی پر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔‘
متاثرہ ڈاکٹر کے بقول انہوں نے کسی سے فون لے کر 15پر کال کی اور پولیس آ گئی۔ ’انہوں نے مجھے گھر تک پہنچایا۔ اس سارے واقعے کی میرے گھر کے باہر لگے کیمروں، سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں اور اے ٹی ایم مشین کے کیمروں میں بھی ریکارڈ ہوئی ہوگی۔‘
پولیس کارروائی:
پولیس تھانہ ماڈل ٹاؤن نے واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کی تھی، لیکن تفتیش کے دوران پولیس اہلکاروں کی شناخت کے بعد گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے بتایا کہ ’ ان میں کانسٹیبل محمد وقاص، کانسٹیبل نفیس، کانسٹیبل آٖصف شامل تھے۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کانسٹیبل رانا قربان، کانسٹیبل عدنان اور کانسٹیبل فیصل گھر سے فرار ہیں ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔‘
ڈی آئی جی نے کہا کہ ’پولیس کے خلاف شہری اعتماد کے ساتھ جائز شکایت کریں تو فوری کاروائی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 11 ماہ میں 330 سے زائد اہلکاروں کا محکمانہ احتساب کیا چکا ہے۔رشوت، کرپشن اور جرائم کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔‘