صوبہ پنجاب میں اتوار کو قومی و صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں کے ضمنی انتخابات میں غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی دونوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 12 میں سے 10 نشستیں اپنے نام کی ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی گجرات سے اپنے بھتیجے موسیٰ الٰہی کے ہاتھوں صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کھا گئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو وزیرآباد میں اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں بھی مسلم لیگ ن کے عدنان افضل چٹھہ نے کامیابی حاصل کی۔
مسلم لیگ ن کی کامیابی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں ضمنی انتخابات میں فاتح امیدواروں کو مبارک باد پیش کی اور دعویٰ کیا کہ ’ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی عوام کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ بھی کہ عوام جان چکے ہیں کہ اس ملک کی ترقی کے لیے محمد نواز شریف کی قیادت ضروری ہے۔ اسی لیے عوام نے شفاف انتخاب میں مسلم لیگ ن کو بھرپور اعتماد سے نوازا ہے۔‘
جبکہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کا سہرا مریم نواز کے سر باندھا۔
ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف احمد خان نے اسمبلی احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم 12 سیٹوں کی وجہ سے مایوس نہیں بلکہ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو عوامی مینڈیٹ نہیں ملا بلکہ انہیں ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔‘
اس ساری صورت حال اور مسلم لیگ ن کی ضمنی انتخاب میں کامیابی کے حوالے سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سیاسی تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’اس وقت جو صورت حال ہے اس میں اس بات کی امید تھی کہ پی ایم ایل این کے لیے پنجاب میں ضمنی انتخاب میں اچھی کارکردگی دکھانا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ اب جو حالات ہیں ان میں پی ٹی آئی کے چانسسز کم ہیں اس لیے کم از کم پنجاب کے اندر اسی قسم کے نتائج کی ہی امید تھی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حسن عسکری نے چوہدری پرویز الٰہی کی گجرات کی نشست پر شکست کے حوالے سے کہا کہ ’انہوں نے وہ نشست ہارنی ہی تھی ہاں اگر چوہدری پرویز الٰہی کا تعلق پی ایم ایل این سے ہوتا تو وہ وہاں سے نشست جیت جاتے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے ممبران کے جیتنے کے امکانات نہیں تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان مسلم لیگ ن تو یہی کہے گی کہ انہیں بڑی کامیابی ملی ہے کیونکہ وہ عام انتخابات کے نتائج کو بھی صحیح سمجھتے ہیں اور ضمنی انتخاب کے نتائج کو بھی وہ پراجیکٹ کریں گے اور وہ یہی کہیں گے کہ یہ کامیابی ان کی کارکردگی کی وجہ سے ہے۔ اب حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اسے جانچنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔‘
سینیئر تجزیہ کار و کالم نگار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ضمنی انتخابات اور اس کے نتائج کے حوالے سے کہا کہ ’جب عام انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں تو لوگوں کو توقع ہوتی ہے کہ وہ حکومت تبدیل کر سکیں گے اور اپنی مرضی کے حکمران چنیں گے جبکہ ضمنی انتخاب میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتائج حکومت بنانے کے عمل پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ قدرتی طور پر عوام حکومتی پارٹی کو ترجیح دیتی ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتظامیہ کا تعاون ڈھکا چھپا نہیں ہے، تیسری بات یہ کہ گذشتہ مہنیوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ جو بھی رویہ رہا وہ کمزور ہوئی اور نو مئی کے بعد تو صورت حال اور بھی زیادہ تبدیل ہوئی، اس لیے مسلم لیگ ن کی جیت کوئی اچنبے والی بات نہیں۔‘
’میرے لیے حیرانی کی بات کامیابی اور ناکامی کا فرق ہے جو کہ کم و بیش اتنا ہی ہے جو عام انتخابات میں تھا۔‘
جب وجاہت مسعود سے پوچھا گیا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے جیت کا سہرا مریم نواز کی طرز حکومت کے سر باندھا جا رہا ہے تو کیا ایسا ہی ہے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’دو مہینے میں کیا ہوتا ہے اور کیا کیا ہے ان دو مہینوں میں انہوں نے۔ پہلے دو مہینے تو نئی حکومت چلانے والے بہت متحرک ہوتے ہیں۔ اس میں ان کا پروفائل بنتا ہے ان کی سمت کا تعین ہوتا ہے لیکن ابھی تک اس حکومت نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔‘