ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائلوں اور ڈرونز کی جگہ اب لفظوں کی جنگ نے لے لی ہے۔ دونوں اطراف کے مشیروں کی جانب سے ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیوں سے ہوا نکل چکی ہے، لیکن سکون کا سانس لینا ابھی دور ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امن نہیں لوٹ رہا اور اس کی وجہ صرف غزہ میں جاری تشدد نہیں ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور تنازع کی تمام وجوہات اب بھی موجود ہیں۔
نام نہاد ’کائنیٹک‘ جنگ ہماری توجہ اقتصادی لڑائی سے ہٹا رہی ہے، جو رواں ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل حملوں سے پہلے سے موجود تھی لیکن اب اس میں شدت آنے کا امکان ہے۔
1979 کے بعد سے ایران کو مختلف امریکی پابندیوں کا سامنا ہے جو اس کے جوہری منصوبوں کے بارے میں امریکی شکوک و شبہات کی وجہ سے مزید سخت ہو گئی ہیں۔ رواں ہفتے کے اختتام پر ایوان میں رپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں نے ایران پر مزید سخت، ممکنہ طور پر فوجی پابندیوں پر اتفاق کیا۔
بلاشبہ عام ایرانیوں کو ان پابندیوں سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو امریکہ میں پیٹنٹ دوائیوں سے لے کر پرانے طیاروں کے لیے بوئنگ سپیئر پارٹس تک ہر چیز کے لیے رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں، لیکن ایرانی حکومت نے خود کو محفوظ رکھا ہے اور اس کے فوجی صنعتی منصوبوں کو فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔
ایران یہ پابندیاں ختم ہوتے دیکھنا پسند کرے گا لیکن اپنے ایجنڈے کو تبدیل کرنے کی قیمت پر نہیں، جس میں اسرائیل کے حریفوں حماس اور حزب اللہ کی امداد بھی شامل ہے۔
ایران کی پابندیوں کی شکار معیشت کے برعکس اسرائیل مغرب کے ساتھ عالمگیریت، اقتصادی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں مل کر کام کر رہا ہے، جس میں اب متحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ ملک کی ابتدائی دہائیوں کے بالکل برعکس ہے، جب مصر نے نہر سویز تک اسرائیلی بحری جہازوں کی رسائی بند کر دی تھی اور 1967 میں خلیج عقبہ میں اسرائیل کی بندرگاہ تک رسائی کو روک کر جنگ کو ہوا دی تھی۔
پچھلے سال اکتوبر تک اسرائیل اقتصادی جنگ کے لیے اتنا ہی ناقابلِ تسخیر نظر آتا تھا جتنا کہ فوجی محاذ پر لیکن اسرائیل کی بھی ایک کمزوری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل دانشمندی سے مالا مال ملک ہے لیکن قدرتی وسائل یہاں کم ہیں، جب کہ ایران کے پاس دانشورانہ سرمائے کی کمی ہے، تاہم اس کے پاس اسرائیل کے ساتھ خفیہ جنگ میں ضائع کرنے کے لیے تیل اور گیس موجود ہے۔
اسرائیل کے لیے آج مسئلہ سرمایہ کاری میں کمی کا رجحان ہے، نہ کہ روایتی طرز کی ناکہ بندی کی، اگرچہ بیلجیئم اور ہالینڈ میں اس حوالے سے پیش رفت کی باز گشت ہو رہی ہے۔ یمن میں حوثی ملیشیا کے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں سے لے کر اسلامی انقلابی گارڈز کی جانب سے خلیج فارس میں اسرائیلی ملکیتی جہازوں پر قبضے تک، انشورنس اور کارگو کی ترسیل کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔
اردن سے متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں کے درمیان متبادل زمینی راستے بھاری سامان جیسے کھانے کی اشیا، مشینری اور گاڑیوں کے لیے سمندری راستوں سے زیادہ مہنگے ہیں۔
اس میں سے کوئی بھی اسرائیلی معیشت کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہے لیکن مارکیٹ کی ایک جدید معیشت مارجن پر چلتی ہے کیوں کہ اخراجات میں اضافہ مسابقت کو کم کرتا ہے۔
روسی توانائی اور خام مال پر یورپی یونین کی پابندیوں کی وجہ سے یورپ کی بیمار معیشتیں ایک انتباہ ہے۔
اسرائیلی فضائیہ ایک ہزار میل جنوب میں حوثیوں سے اپنے جہازوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، جنہوں نے پہلے ہی یہ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ امریکی اور یورپی جنگی جہازوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، جو بحیرہ احمر سے نہر سویز کی طرف جانے والے مغربی ممالک کے بحری جہازوں کی حفاظت کی ’ضامن‘ ہیں۔
ایران کی جانب سے کھلے سمندروں میں قزاقی کا استعمال نہ صرف اسرائیل کی فضاؤں میں بلکہ زمین پر بھی تشدد کا مقامی خطرہ ہے، جو بہت سی زیارت گاہوں والے مغربی کنارے میں سیاحت سے ہونے والی اسرائیلی آمدنی کو ڈرامائی طور پر کم کر رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور لبنان اور شام کی سرحدوں میں سکیورٹی کی ضروریات کی وجہ سے بڑی تعداد میں کارکنوں کو فوجی یونیفارم میں بلایا گیا ہے۔
ماضی میں اسرائیل نے فیصلہ کن فتوحات تیزی سے حاصل کی تھیں۔ اس کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریون نے متنبہ کیا تھا کہ وہ طویل عرصے تک عدم استحکام والی جنگوں کی وجہ سے قائم نہیں رہ سکتا۔
حماس اسرائیل کے لیے ایک ’سخت اور سفاک‘ حریف ثابت ہوا ہے۔ کیا حزب اللہ کے ساتھ جنگ زیادہ دیر تک نہیں چلے گی اور اسرائیل کی معیشت کو مزید متاثر نہیں کرے گی؟ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اسرائیل نے دو اہم علاقائی شراکت داروں کو کھو دیا ہے، جن کی حمایت اس کی آزادی کی پہلی دہائیوں میں اہمیت کی حامل تھی۔
1979 میں مصر کے ساتھ امن معاہدے سے قبل تک اسرائیل کے صرف دو علاقائی دوست تھے یعنی ایران اور ترکی، جو اتفاق سے مشرق وسطیٰ کے غیر عرب ممالک تھے۔ شاہ ایران نے اسرائیل کو تیل بیچا اور نیٹو کا رکن سیکولر ترکی پڑوسی ملک شام اور عراق میں فلسطینیوں اور سوویت نواز حکومتوں کا مخالف تھا۔ کچھ مسلم عرب ریاستیں اسرائیل کی دوست ہو سکتی ہیں (یہاں تک کہ اردن جیسے اتحادی بھی) جبکہ ایران اس کا جانی دشمن ہے اور ترکی کے صدر اردوغان حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو بوسہ دیتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ایران کی کئی دہائیوں کی معاشی تباہی سے بچنے کی صلاحیت اس بات کی علامت ہے کہ اقتصادی طور پر زیادہ مزاحمت دکھانا (نیز جابرانہ) ہونا ایک ریاست کو معاشی جنگ میں مضبوط بناتا ہے۔
اسرائیلی معاشرہ اب تک بیرونی خطرات کے مقابلے میں سب سے زیادہ مربوط ثابت ہوا ہے۔ جیسے جیسے جنگ آگے بڑھ رہی ہے، رائے عامہ میں بن یامین نتن یاہو کی مقبولیت اور غیر مقبولیت دونوں ہی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں انسانی اموات کی تعداد میں معاشی اور سماجی اخراجات شامل کریں تو ایک نئی غیر یقینی صورت حال یقیناً اسرائیل کو پریشان کر رہی ہے۔
© The Independent