شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر بدھ کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ’103 ملزمان میں سے 20 عید سے پہلے رہا ہو کر گھروں‘ میں پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ متفرق درخواست کے ذریعے رہائی پانے والوں کی تفصیل جمع کرائی گئی ہے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات سے متعلق سماعت کی۔
جن 20 افراد کو رہا کیا گیا ان میں کی سزائیں مکمل ہو چکی تھیں تاہم سزا پانے والے افراد کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں جلدی میں سنائی گئیں۔
اعتزاز احسن نے بدھ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر کہا کہ ’ان ملزمان کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیجا گیا ہے۔ ایک بچے کو ٹرائل کیے بغیر سزا یافتہ قرار دیا گیا۔ وہ اب چھپتا پھر رہا ہے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بڑا ’ہیپ ہیزرڈ‘ سا ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل کی جو پرفیکشن ہوتی ہے وہ اس کیس میں نظر نہیں آئی۔‘
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ ’آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی فہرست میں ہے؟‘
اس پر اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ ’وہ اس فہرست میں شامل ہے۔‘
عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔
بینچ کی تشکیل کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا گیا
بدھ کو سماعت کے آغاز میں ہی درخواست گزار کے وکلا اعتزاز احسن، احمد حسین خواجہ اور سلمان اکرم راجہ نے لارجر بینچ کی حمایت کر دی۔ درخواست گزاروں کی طرف سے بینچ پر اعتراض کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے چھ رکنی بینچ کے سربراہ نے ازسرنو لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’موجودہ کیس میں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے ہے۔ موجودہ چھ رکنی بینچ چار دو کے تناسب سے اپیل منظور کرے تو کیا تاثر جائے گا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ پانچ ججوں کا فیصلہ چار نے ختم کر دیا؟
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے انہیں کہا کہ ’یہ آپ کیا بات کر رہے ہیں؟ اپیل میں جو بھی فیصلہ ہوا عدالتی فیصلہ کہلائے گا۔‘
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’تکنیکی طور پر یہ بات درست مگر معاملہ عوامی اعتماد کا ہے۔ میں اس عدالت کے وقار کی بات کر رہا ہوں۔ 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں سات ججز کا فیصلہ موجود ہے۔ موجودہ کیس میں کم از کم آٹھ رکنی بینچ ہونا چاہیے۔ آٹھ رکنی بینچ میں چار چار کے تناسب سے ٹائی ہو سکتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ کم از کم نو رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔‘
اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ ’نو رکنی بینچ میں بھی فیصلہ پانچ چار سے آیا تو پھر وہی بحث ہو گی۔ پھر کہا جائے گا پانچ ججوں کے فیصلے پر پانچ نے اپیل منظور کی۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ’اگر موجودہ بینچ تین تین کے تناسب سے فیصلہ دے تو کیا ہو گا؟‘ جس کے جواب میں خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ’پھر اپیل خارج تصور ہو گی۔ سابقہ پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔‘
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ وہی باتیں کر رہے ہیں جو پہلے ایک بات چار تین والی بحث چلی تھی۔ ہم صرف معاملہ کمیٹی کو بھجوا سکتے ہیں۔‘
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ ’کمیٹی نے دوبارہ چھ رکنی بینچ کا ہی کہا تو کیا ہو گا؟‘
سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے کہا کہ ’پھر ہم تسلیم کر لیں گے مگر ایک بار کمیٹی کو معاملہ ریفر کر دیں۔‘
ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب
اعتزاز احسن اور دیگر وکلا نے فوجی عدالت کے سویلین کے ٹرائل کے فیصلوں کو ریکارڈ پر لانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’20ملزمان کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے ریکارڈ پر لائے جائیں۔‘
اس پر عدالت نے کہا کہ ’ہم ان سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں۔‘ جسٹس شاہد وحید نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ’ہمیں پتہ تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔‘
سپریم کورٹ نے گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل سے فوجی عدالتوں سے تین سال تک سزا پانے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
عدالت نے عید الفطر سے قبل ایک سال تک سزا پانے والے 20 ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عید الفطر پر رہا ہونے والے ملزمان کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھیں۔