پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے ’فل کورٹ‘ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کچھ جج چھٹیوں پر ہیں اس لیے ستمبر سے قبل ’فل کورٹ تشکیل دینا ممکن نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت کچھ ججز دستیاب نہیں، مزید کچھ جج چھٹیوں پر جانے کے منتظر ہیں۔‘
عدالت عظمٰی کے لارجر بینچ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد منگل کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بدھ کی دوپہر سنایا گیا۔
فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق استدعا مسترد ہونے کے بعد اب چھ رکنی بینچ فوج عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کے سماعت جاری رکھے گا۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’اپنا کام جاری رکھیں گے، کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔‘
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ’کل لطیف کھوسہ نے گرفتار ملزمان سے ناروا سلوک کی شکایت کی تھی، میں نے خود چیک کیا، کسی ملزم کے ساتھ ناروا سلوک نہیں ہوا۔ ملزمان کو صحت سمیت تمام سہولیات میسر ہیں، ملزمان کے خلاف ناروا سلوک ہوا تو ایکشن ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں برس نو مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد فوجی و دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلین عناصر کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف مختلف درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے حکومت اور فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے۔
ابتدائی طور پر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے چیف جسٹس نے 21 جون کو عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے نو رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد نو رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے سات رکنی نیا بینچ تشکیل دیا مگر جسٹس منصور کی علیحدگی کے بعد سات رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا جس کے بعد سے چھ رکنی بینچ اس کیس کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہے۔