پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق طلبہ و طالبات اپنے بستے میں ہوم ورک کے لیے ہر مضمون کی الگ کاپی کی بجائے صرف ایک عدد رجسٹر رکھیں گے۔
اس نوٹیفیکیشن کے مطابق طلبہ ہر روز سکول میں ہوم ورک چیک کروانے کے لیے رجسٹر جمع کروائیں گے، جسے باری باری ہر مضمون کا استاد دیکھے گا۔
محکمہ تعلیم کے مطابق ایک رجسٹر کے استعمال سے جہاں بچوں کو اضافی بوجھ سے چھٹکارا ملے گا، وہیں والدین کو تعلیمی اخراجات میں بھی کافی آسانی میسر آئے گی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا بیشتر حصہ پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے جہاں ابتدائی تعلیم کے لیے سکول آنے والے کم عمر بچے گرمی اور سردی کے موسم میں دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے سکول پہنچتے ہیں جس میں ایک مشکل وزنی بستے بھی ہوتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کوئی بھی ادارہ طلبہ و طالبات کو اپنے سکول یا کسی مخصوص ادارے کے مونو گرام/ لوگوز والے رجسٹر یا نوٹ بکس خریدنے پر مجبور نہیں کرے گا۔
اس حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیرِ تعلیم دیوان علی چغتائی نے کہا کہ جو والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کرواتے ہیں وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں لیکن سرکاری تعلیمی اداروں میں وہ بچے آتے ہیں، جن کے پاس شاید تعلیم حاصل کرنے کے کم سے کم اخراجات بھی موجود نہیں ہوتے، لہذا ون نوٹ بک/ون رجسٹر پالیسی ان ہی بچوں کے لیے بنائی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اس سے نہ صرف بچوں کے بستوں کا وزن کم ہوگا بلکہ والدین کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم حکومت کے اس اقدام سے بعض شہری مطمئن نظر نہیں آ رہے۔
مظفرآباد کے شہری محمود گیلانی نے اس حکومتی نوٹیفکیشن کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پالیسی بنانے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا، اچانک ون نوٹ بک کی پالیسی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا، جسے بعد ازاں منسوخ کرنے کے بعد پھر سے جاری کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اس پالیسی پر نجی سیکٹر میں سرے سے عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ نجی تعلیمی اداروں میں بچے اب بھی آٹھ سے دس کاپیاں استعمال کر رہے ہیں۔ اگر حکومت بچوں کے بیگ کا وزن کم کرنا چاہتی ہے تو وہ بچوں کے سلیبس میں موجود کتابوں کو کم کرے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’حکومت نے اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے۔‘
ایک اور شہری سردار عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت کا ون نوٹ بک/ون رجسٹر پالیسی کا نوٹیفکیشن بھی ردی کی ٹوکری والا نوٹیفیکیشن ہے۔ حکومت کی ون نوٹ بک پالیسی صرف باتوں کی حد تک محدود ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میرے خاندان کے بچے سکول جاتے ہیں، وہ وہی بھاری بھرکم سکول بیگ لے کر جاتے ہیں۔ صورت حال جوں کی توں ہے۔ حکومتی نوٹیفکیشن پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
’نجی تعلیمی اداروں نے بک ڈپوز پر ٹھیکے لگا رکھے ہیں۔ عام مارکیٹ میں دس روپے کی ملنے والی کاپی کو لوگوز لگا کر دو سو سے تین سو روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔ سرکار کی یہ پالیسی لوگوں کے حق میں نہیں بلکہ لوگوں کے خلاف جاتی ہے۔‘
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے نجی تعلیمی اداروں کی نمائندہ مرکزی تنظیم آل کشمیر پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن (اپیسکا) کے صدر سید اشتیاق بخاری سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’ون بک/ون رجسٹر پالیسی کے حوالے سے ہم نے محکمہ تعلیم کے ذمہ داران سے بارہا نشستیں کیں۔ ہمارا اس پر موقف یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کی کتب چھ ہوتی تھیں جو اب بڑھ کر دس ہو چکی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کتابوں کا حجم کم نہ کریں اور کہیں کہ تمام کتابوں کے کام کے لیے صرف ایک رجسٹر رکھا جائے؟‘
اشتیاق بخاری کے مطابق: ’بچوں کو ایک رجسٹرڈ تھما دینے سے ان پر تعلیم کے دروازے بند ہوں گے۔ ایک رجسٹر بچے کی دس کتب کا نعم البدل کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم نے محکمہ تعلیم کو یہ مشورہ دیا کہ ہم دو سے تین کتب کو ایک نوٹ بک پر یکجا کر کے کاپیوں کی تعداد چھ کر سکتے ہیں، جس سے بچوں کے بیگ کا حجم کم ہوسکے گا لیکن ساری کتابوں کا ایک رجسٹرڈ رکھنا ناممکن ہے۔‘
نجی تعلیمی ادارے کم قیمت کاپیاں اپنے لوگوز کے ساتھ من پسند قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اس الزام پر صدر اپیسکا کا کہنا تھا کہ پوری دنیا برانڈنگ پر چل رہی ہے۔ ’ہم کاپیوں پر اس لیے لوگوز لگاتے ہیں کہ کاپی کے جو صفحات ڈیزائن ہوتے ہیں وہ سالانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں کہ پورا سال بچے کے پاس ایک نوٹ بک رہے۔ اگر بچہ کتاب کے ساتھ ساتھ نوٹ بک سے بھی رہنمائی لینا چاہے تو اس کے پاس ریکارڈ موجود ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’والدین کو اگر اس کے علاوہ نوٹ بک خریدنے کا کہا جائے تو وہ غیر معیاری نوٹ بکس خریدتے ہیں جو پھٹ جاتی ہیں اور کاغذ غیر معیاری ہونے کی وجہ بچے کے کام کا قیمتی ریکارڈ ضائع ہو جاتا ہے۔‘
بقول اشتیاق بخاری: ’جہاں تک قیمت کی بات ہے تو ہم نے محکمہ تعلیم کو کھل کر کہا ہے کہ وہ سول سوسائٹی کو شامل رکھتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دے جو معیاری کاغذ کے ساتھ پورا سال چلنے والی نوٹ بک کا مارکیٹ سے ریٹ لے کر اس بات کا تعین کریں کہ نجی تعلیمی اداروں میں جو نوٹ بکس فروخت کی جا رہی ہیں، کیا ان کی قیمت زیادہ ہے؟‘