امریکی ریاست واشنگٹن کے قصبے لین ووڈ میں اس وقت رات کے ساڑھے دس بجے ہیں۔ یہاں ایک ریستوران میں بطور شیف کام کرنے والے 30 سالہ مائیکل سوورن اپنی دن بھر کی تھکاوٹ اتارنے کے لیے بیڈروم میں جا کر اپنی اہلیہ سے قربت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ریستوران کی نوکری سے مائیکل اپنے بلز ادا کر پاتے ہیں لیکن ان کی اہلیہ اور انہوں نے بچوں کو مصوری سکھانے کی کلاسز بھی شروع کی ہیں جس کے بعد انہیں امید ہے کہ وہ ایک دن اپنی بیٹی کے ساتھ گھر پر ہی پرسکون زندگی گزار سکیں گے۔
اس خاندان نے مئی میں پہلا مدرز ڈے منایا جب ان کی بیٹی ایمیلیا نے گلابی چست لباس پہنا جس پر’مامز فرسٹ مدرز ڈے‘ لکھا تھا۔
11 ماہ کی ایمیلیا اپنی والدہ نک کے قریب بستر پر سو رہی تھی جب مائیکل نے نہانے کے بعد ایک ٹیوب سے تھوڑی سی جیل (کریم) نکالی اور اس سے اپنے کندھوں اور سینے پر 30 سیکنڈ تک مساج کیا۔ پھر وہ ایک پرانی سرمئی ٹی شرٹ پہن کر بستر میں گھس گئے۔
مائیکل کے باتھ روم کی الماری میں جو ٹیوب پڑی تھی وہ کوئی عام جیل نہیں تھی بلکہ یہ ایک مردانہ مانع حمل کریم تھی جس سے دنیا بھر کے لاکھوں مرد و خواتین کی زندگیاں تبدیل ہو جائیں گی۔
اس بات کو تقریباً نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے جب پہلی بار خواتین کے لیے مانع حمل پلز (گولیوں) کی منظوری دی گئی تھی۔ دوسری جانب کنڈوم اور ویسکٹومی (مردانہ نس بندی) کے علاوہ مردوں کے لیے مانع حمل کا کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں ہے۔ خواتین کے لیے ایک درجن سے زائد ایسے طریقے موجود ہیں۔
خواتین کی یہ پلز چھ دہائیوں بعد آج بھی حمل روکنے کے لیے سب سے زیادہ مقبول انتخاب ہے۔ انگلینڈ میں 2017 سے 2018 کے درمیان 31 لاکھ خواتین کو مانع حمل گولیاں تجویز کی گئیں جو حمل روکنے کے دیگر طریقوں کا 44 فیصد بنتا ہے۔
ان پلز کے مسلسل استعمال سے ہونے والے نقصانات، جن میں وزن کا بڑھ جانا، جنسی خواہش میں کمی، مایوسی اور بے چینی کے دورے شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ خواتین کی مجبوری بن چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈنمارک میں 2016 میں شائع ہونے والی ایک بڑی تحقیق کے مطابق وہ خواتین جو ہارمونل مانع حمل ذرائع استعمال کرتی ہیں ان میں ڈپریشن کی شرح زیادہ پائی گئی۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے 15 سے 34 سال کی عمر کی دس لاکھ سے زیادہ خواتین پر تحقیق کے بعد یہ نتائج بیان کیے کہ عام مانع حمل گولی لینے والی خواتین میں ڈپریشن کی ادویات لینے کے امکانات 23 فیصد ہوتے ہیں جب کہ ہارمونل گولیوں کا استعمال کرنے والی خواتین میں یہ امکان 34 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
اگست میں اپنی شادی کی آٹھویں سالگرہ منانے والے مائیکل اور ان کی اہلیہ کو بھی انہیں گولیوں کے باعث پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ 32 سالہ نِک نے ذہنی صحت پر ان ادویات کے مضر اثرات کے بعد ہارمونل مانع حمل گولیوں کا استعمال بند کردیا۔
نک کا کہنا ہے کہ ’ان پلز کے استعال سے میری جنسی خواہش میں کمی، بدمزاجی میں اضافہ، رویے میں غصہ، مزاج میں تیزی سے تبدیلی اور بعض اوقات شدید افسردگی جیسے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔‘
بچوں کو آن لائن ریاضی سکھانے والی کمپنی ڈریم بوکس لرننگ میں کام کرنے والی نک پر سہ ماہی پلز کے اثرات اتنے ڈرامائی تھے کہ انہیں بیماری کے لیے چھٹی لینا پڑی۔
وہ کہتی ہیں: ’میں واقعی کچھ دن بیمار رہی۔ میں چاہتی ہی نہیں تھی کہ کوئی مجھے چھوئے بھی اور میں اپنے اندر افراتفری محسوس کر رہی تھی لیکن جب میں یہ ادویات لینا بند کر دیتی تو میرا موڈ اچھا ہو جاتا۔ نوجوانی میں آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا نارمل ہے اور کیا نہیں۔‘
2013 کے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ مزاج میں تبدیلی کے باعث متعدد خواتین پہلے ہی سال ان پلز کا استعمال بند کر کے متبادل ذرائع کا انتخاب شروع کر دیتی ہیں جن میں کاپر کوائل، انجکشن، آئی یو ایس اور آرم امپلانٹ جیسے طریقے شامل ہیں۔
انگلینڈ میں 2017 سے 2018 کے دوران 16 فیصد خواتین کو امپلانٹ تجویز کیا گیا تھا 9 فیصد کو مانع حمل انجکشن تجویز کیا گیا تھا اور 16 فیصد خواتین آئی یو ایس تجویز کیا گیا تھا جس میں کوائل بھی شامل ہے۔
تاہم مانع حمل گولیوں کے برعکس جس کے لیے صرف ایک طبی نسخے کی ضرورت ہوتی ہے، امپلانٹس اور انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز (رحم کے اندر لگائے جانے والے آلات) کو صرف ڈاکٹروں سے ہی فکس کروایا جا سکتا ہے۔
اس عمل کی وجہ سے خواتین کو ان غیر ضروری طبی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو تکلیف، درد اور صحت کے لیے خطرات کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس حمل کو روکنے کے لیے محدود ذرائع موجود ہیں۔
خواتین کوائل رکھوانے کے بعد چکر آنے، کئی دنوں تک رہنے والے شدید درد اور بے قاعدہ ماہواری یا بہت زیادہ خون بہنے کی شکایات کرتی ہیں۔
برطانیہ میں حکومت کی جانب سے این ایچ ایس کی مالی اعانت میں کمی کی وجہ سے یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے جس سے جنسی صحت کی خدمات پر دباؤ پڑا ہے۔ کچھ خواتین کو ایل اے آر سی کے لیے ایک ماہ تک انتظار کرنے کو کہا جا رہا ہے اور اس تاخیر سے حادثاتی حمل کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
مئی میں اسقاط حمل پر پابندی کے باعث نہ صرف مانع حمل تک خواتین کی رسائی کم ہو جائے گی بلکہ مستقبل میں اسقاط حمل تک ان کی رسائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
لیکن مائیکل کی طرح اس آزمائشی مانع حمل کریم کے استعمال سے اس عدم توازن کا ازالہ کیا جا سکتا ہے اور ہم محض خواتین کی بجائے مردوں کو بھی مانع حمل کا بوجھ بانٹتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
مردانہ مانع حمل گولیوں کے وعدے کئی دہائیوں سے کیے جا رہے ہیں۔ اس پر اب بھی بحث کی جا رہی ہے لیکن اس میں بہت کم کامیابی ملی ہے۔
شیفیلڈ یونیورسٹی کے اینڈرولوجی کے پروفیسر ایلن پیسی کے مطابق مردانہ پلز میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ٹیسٹوسٹیرون ہارمونز گولی کی شکل میں جسم میں صحیح طرح سے داخل نہیں ہو پاتے۔
یہ جگر کے ذریعے اتنی جلدی تحلیل ہو جاتا ہے کہ اس کی دن بھر میں دو یا تین خوراکیں ضروری ہو جاتی ہیں۔ تاہم حالیہ مہینوں میں مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ مارچ میں ایک ایسے کیپسول کا تجربہ کیا گیا جسے دن میں ایک بار لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور جس سے کسی مضر اثرات کے بغیر سپرم کی تعداد میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
کیل مہاسوں، جارحانہ رویے اور بڑھتی ہوئی جنسی خواہش سمیت دیگر مضر اثرات سامنے آنے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے 2016 میں مردانہ مانع حمل انجکشن کے تجربات روک دیے تھے۔
گولیوں اور انجکشنز کے متبادل کے طور پر استعمال کی جانے والی یہ کریم ٹیسٹوسٹیرون کو جلد کے ذریعے خون کے دھارے میں براہ راست جذب کر دیتی ہے۔
یہ مانع حمل جیل جسے این ای ایس / ٹی کہا جاتا ہے، ٹیسٹوسٹیرون اور پروجیسٹرون کا ایک مرکب ہے جو مردانہ نطفے میں سپرمز کی تعداد کم کر دیتی ہے۔
اس تجربے میں حصہ لینے والے 53 جوڑوں میں سے ایک، مائیکل اور نِک گذشتہ سال نومبر سے ہی صرف این ای ایس / ٹی جیل کو واحد مانع حمل طریقے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
مائیکل کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ خود اس کریم کو اپنے جسم پر لگاتے ہیں جس سے دھوپ کی سی چبھن کا احساس ہوتا ہے۔
اس کریم کو پانچ سال قبل ایک قابل عمل آپشن کے طور پر آگے بڑھایا گیا تھا کیونکہ ایسٹروجن اور ٹیسٹوسٹیرون جیل پہلے ہی ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی میں استعمال ہونے والی مصنوعات میں شامل تھی۔
برطانیہ میں بھی 19 جوڑے مانچسٹر اور ایڈنبرا یونیورسٹیز کے زیر اہتمام دو سال سے اس تجربے کا حصہ ہیں جہاں محققین سپرم کاؤنٹ، جیل کے استعمال کے ممکنہ مضر اثرات اور ان جوڑوں میں حمل کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔
سینٹ میری ہاسپٹل کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر شیرل فٹزجیرالڈ مانچسٹر میں اس تحقیق کی سربراہی کررہی ہیں۔
مائیکل کی طرح، مانچسٹر کے ایک جوڑے نے بھی گولیوں کے باعث پیدا ہونے والی بے چینی سے تنگ آ کر اس جیل کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ڈاکٹر شیرل نے کہا: ’اس جوڑے نے محسوس کر لیا تھا کہ اس بوجھ کو برابری کی سطح پر اٹھایا جانا چاہیے۔‘
اس تجربے میں شامل شرکا کے سپرمز کو جیل میں شامل پروجسٹوجن کے ذریعے مؤثر طریقے سے کنڑول کیا گیا اس عمل میں دماغ کے پٹیوٹری غدود نطفے کی پیداوار کو بند کر دیتے ہیں۔
پروجسٹون کی وجہ سے مردانہ ہارمون میں کمی کو متوازن کرنے کے لئے جیل میں ٹیسٹوسٹیرون شامل کیا جاتا ہے۔
اگرچہ پہلے پہل مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے جوڑے نے اس جیل کے مضر اثرات کے بارے میں شکایت کی تاہم بعد انہوں نے اسے اچھے طریقے سے برداشت کرنا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر شیرل نے انتباہ کیا کہ اگر کوئی مرد جیل سے ٹیسٹوسٹیرون کافی مقدار میں جذب نہ کر پائے تو اسے جنسی خواہش میں کمی، مزاج میں تبدیلی ، بالوں کا گرنا اور تھکاوٹ جیسی پریشانیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔
اس کے برعکس اگر زیادہ مقدار میں ٹیسٹوسٹیرون جیل سے خون کے بہاؤ میں جذب ہو جائے یہ جارحانہ مزاج یا وزن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
جیسا کہ مائیکل نے اعتراف کیا: ’میں جیل میں ٹیسٹوسٹیرون کے مضر اثرات کے بارے میں بہت فکر مند ہوں اس سے میرا مزاج بدل جاتا ہے یا میں غصے میں آتا ہوں۔‘
پہلے تو ان کی اہلیہ یہ جانتے ہوئے خوفزدہ تھیں کہ یہ ایک ہارمون کنٹرول کرنے والی جیل ہے جس سے وہ مزاج میں تیزی پیدا ہونے والی تبدیلی سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔
’میری بیوی کے خدشات اس وجہ سے شدت اختیار کر گئے کہ ہم ایک نئے نئے والدین بننے کی حیثیت سے پہلے ہی تناؤ میں تھے۔ اسے میری جارحیت یا مزاج میں تبدیلی کے بارے میں بھی تشویش تھی اور یہ کہ ایسا برتاؤ مجھے یا ہماری بیٹی کو کیسے متاثر کرسکتا تھا۔‘
دوسرا خطرہ یہ ہے کہ اس جیل کو لگانے کے بعد خاندان کے دیگر افراد کو چھونے سے ان میں بھی ہارمونز کا توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ان سے کہا جاتا ہے کہ جیل لگانے کے بعد چار گھنٹے تک جسمانی تعلق سے گریز کریں، یہی وجہ ہے کہ مائیکل بستر پر ٹی شرٹ پہن کر سوتے ہیں۔
لیکن آٹھ ماہ تک روزانہ اس کے استعمال کے بعد نک مذاقاً کہتی ہیں کہ اس جیل کے مضر اثرات اب مثبت اثرات میں بدل چکے ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’مجھے یہاں ہنسنا پڑ رہا ہے کیونکہ یہ ایک اشتہار کی طرح ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جیل کے استعمال کے بعد مائیکل کے پٹھے پہلے سے مضبوط ہو گئے ہیں اور وہ اب بستر پر زیادہ وقت لگاتے ہیں۔ ہم 11 سالوں سے اکٹھے ہیں اور جیل کے استعمال کے بعد ہی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔‘
نظریاتی طور پر جیل قابل واپسی عمل ہے یعنی جب مرد اس کا استعمال بند کر دیتے ہیں تو ان کے نطفے میں سپرمز کی تعداد صفر سے ایک کروڑ 50 لاکھ اور پھر 20 کروڑ فی ملی میٹر تک پہنچ جاتی ہے جو ڈاکٹر شیرل کے مطابق معمول کے مطابق ہے۔
تاہم اس میں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ ان کے نطفے میں سپرمز کی تعداد مستقل طور پر صفر رہ سکتی ہے اور مرد مستقل طور پر بانجھ ہوجائیں گے۔
ان خدشات کے باوجود پیسی کا کہنا ہے کہ ’صرف ایک ہی سوال ہے کہ نطفے میں سپرمز کی پیداوار دوبارہ کتنی جلدی شروع ہوگی؟‘
مائیکل جیل کے باعث مستقل طور پر بانجھ پن کے امکان سے پریشان نہیں ہیں۔
’یہ ہمیشہ ہی ایک تشویش کی بات ہے کہ ہم دوسرا بچہ پیدا نہیں کرسکیں گے لیکن یہ صرف ایک ایسا خطرہ ہے جسے ہم قبول کرنے کو تیار ہیں۔‘
’اگر ہمارا دوسرا بچہ نہ بھی ہو تو ہمیں اس کی پریشانی نہیں ہے۔ اگر میرے نطفے میں سپرمز واپس نہیں آتے تو یہ دنیا کا خاتمہ نہیں ہو گا۔
دوسری جانب نک نے دوسرے بچے کے بارے میں بھی ذہن بنا رکھا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان زندگی میں ایسے لمحات آئے ہیں جن کے اثرات سے وہ گھبرا گئی تھیں۔
’لیکن ہمارے پاس ایک خوبصورت چھوٹی سی بچی ہے اور اگر میں مزید بچے پیدا کرنے کو تیار نہیں ہوتی تو میں اس تجرباتی تحقیق کا کبھی حصہ نہ بنتی۔ اگر اب ایسا ہوتا ہے تو ہم اس کا جشن منائیں گے۔‘
مردانہ مانع حمل کے انتخاب کے لیے مزید طریقوں کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے جو ان نمبرز سے ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ 2006 اور 2016 کے درمیان برطانیہ میں ویسکٹومی (مردانہ نس بندی) کی تعداد میں 64 فیصد کی کمی واقع ہوئی جبکہ کنڈومز کا استعمال سب سے مقبول طریقہ رہا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال آٹھ کروڑ 50 لاکھ خواتین منصوبہ بندی کے بغیرحملہ ہوتی ہیں اور یہ تعداد تمام حملہ خواتین کا 40 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں دو کروڑ 50 لاکھ غیر محفوظ اسقاط حمل غیر تربیت یافتہ افراد غیر محفوظ اشیاء کو یوٹرس میں داخل کرنے جیسے خطرناک طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔
تو کیا مرد واقعی مانع حمل کے روزمرہ استعمال اور ان کے مضر اثرات کو قبول کرنا چاہتے ہیں؟
’یوگو‘ کی جانب سے جنوری میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق قومی رویوں میں تبدیلی آرہی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تین میں سے ایک برطانوی مرد مانع حمل کی گولی لینے کا خواہاں ہوگا۔
سروے میں حصہ لینے والوں میں سے 80 فیصد مردانہ مانع حمل کی مشترکہ ذمہ داری کو مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ایڈنبرا میں جیل کی تحقیق کرنے والے ایک محقق جان رینالڈ رائٹ کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے بہت سے مطالعے ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جیل یا مانع حمل کے دیگر طریقوں کو استعمال کرنے میں مردوں کی دلچسپی رہی ہے۔‘
2012 میں 9،000 مردوں کے ایک عالمی سروے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ 55 فیصد جواب دہندگان نئے ہارمونل مانع حمل کی آزمائش کے لیے تیار تھے۔
رینالڈ رائٹ کا کہنا ہے کہ ان نتائج کے باوجود سب سے بڑی رکاوٹ یہ رہی ہے کہ اس سے قبل دواسازی کی صنعت نے مردانہ مانع حمل کی تیاری میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ ان کو خدشات تھے کہ بہت کم افراد انہیں استعمال کریں گے۔
ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ خواتین اپنے مرد ساتھیوں پر اعتماد کرسکتی ہیں کہ وہ ہر روز مانع حمل ادویات کا باقاعدہ استعمال کریں گے۔
انگلیہ رسکن یونیورسٹی کے 2011 میں ہونے والے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں نصف خواتین (ہر 134 میں سے 70) خواتین کو یہ اندیشہ ہے کہ ان کے مرد ساتھی گولی لینا بھول جائیں گے۔
ڈاکٹر شیرل کا کہنا ہے کہ ’یہ مردوں کے لئے شرم کی بات ہے کہ وہ خواتین کی طرح حمل پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔‘
ان کا خیال ہے کہ یہ جیل صنفی مساوات کی طرف ایک نئے قدم کا اشارہ ہے جیسا کہ آج کل اگر مرد اپنے بچے کے لئے ذمہ دار ہیں تو انھیں مزید بچے پیدا کرنے سے روکنے کے لیے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
نک بھی اس بات سے متفق ہیں: ’میں چاہتی ہوں کہ مردوں کو بھی اَن چاہیے حمل سے بچنے کے لیے ذمہ داری لینا چاہیے اور وہ پیدائش پر قابو پانے کی ذمہ داری قبول کریں۔‘
2022 میں متوقع نتائج اس بات کا تعین کریں گے کہ کیا این ای ایس/ ٹی جیل تجارتی بنیادوں پر مارکیٹ تک پہنچنے سے قبل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی منظوری حاصل کر پائے گی یا نہیں۔
رینالڈ رائٹ نے بہت زیادہ امیدوں کے ساتھ پیش گوئی کی ہے کہ یہ جیل گولی اور انجکشن سے کہیں بہتر ہے۔ 2020 کے آخر تک ہم امید کرتے ہیں کہ جیل کے نتائج سامنے آ جائیں گے۔
ڈاکٹر شیرل کا کہنا ہے کہ ’جیل 10 سال بعد عام استعمال کے لیے دستیاب ہو گی لیکن اہم یہ ہے کہ اسے تجویز کرنا ہوگا۔ یہ خواتین کی مانع حمل پلز کی طرح ہی ہوسکتا ہے۔‘
اس جیل کی قیمت کا ابھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا گو کہ ہارمون بذات خود سستے ہیں لیکن دوا ساز کمپنیوں کی حمایت کے بغیر، اس کی پیداوار مہنگی ہوسکتی ہے۔
© The Independent