بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے اوتھل کے قریب واقع زیرو پوائنٹ 130 کلومیٹر دور ہنگول نیشل پارک میں واقع ہنگلاج ماتا نامی مندر میں تین روزہ میلے کی تقریبات جاری ہیں جو اتوار شب اختتام پذیر ہوں گی۔
انڈپینڈٹ اردو نے اس تاریخی میلے کا احوال دکھانے کے لیے سندھ کے شہر حیدر آباد سے آئے ہوئے یاتری بھگت مکیش کمار کے ساتھ زیرو پوائنٹ ہنگلاج ماتا مندر تک کا سفر کیا اور مختلف مقامات پر یاتریوں کے رسومات ریکارڈ کیں۔
زیرو پوائنٹ کے مندر میں موجود مکیش کمار نے بتایا ’ہمارے لیے یہ یاترا ہر چیز سے بڑھ کر ہے اور جیسے تیسے ہر کوئی چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، بچہ ہو یا بوڑھا سب ہر سال اپریل کے آخری ہفتے ہنگلاج ماتا کے درشن کے لیے جاتے ہیں۔‘
مکیش کمار کے مطابق ہندو اس سفر میں بنیادی طور تین مختلف جگہوں پر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔
’اس سفر میں ہمارا پہلا پڑاؤ زیرو پوائنٹ کے اسی مندر میں ہوتا ہیں، ہم یہاں آکر رات گزارتے ہیں اور مندر کے درشن کرکے اپنے اِس مقدس سفر کا آغاز کرتے ہیں۔‘
مختلف مذہبی نعرے لگاتے ہوئے اور ناچتے ہوئے یاتری اُس وقت اور بھی زیادہ پر جوش ہو جاتے ہیں جب اُن کے یہ قافلے 100 کلومیٹر کے قریب فاصلہ طے کر کے مڈ والکینو جسے چندر گُپ کا نام دیا گیا ہے پہنچتے ہیں۔
چندر گُپ نامی اس مڈ والکینو پر چھڑھنے کے لیے 300 سے زائد سیڑھاں بنائی گئی ہیں جو بڑے عمر کے یاتریوں کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہوتا ہے۔
مکیش کمار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ناریل وہ لوگ پھینکتے ہیں جنہوں نے پچھلے سالوں منت مانگی ہو اور جو قبول ہوئی ہو اس کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں اور مٹی لگانے سے مختلف قسم کے امراض سے شفایاب ہونے اور اس سے چھوٹے چھوٹے گھر اس لیے بنائے جاتے ہیں جو آنے والے جنم میں یہ گھر اصلی گھر کے طور پر ملے۔‘
مکیش کمار کے مطابق یہ خاص مٹی یاتری اپنے اُن پیاروں کے لیے بھی لے کر جاتے ہیں جو یاترا پر نہیں آسکے ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں اسی کھلے میدان میں یاتریوں کا ہر گروپ اپنے ساتھ لائی ہوئی دیگچیوں میں چاول پکاتے ہیں اور ثواب کی نیت سے یاتریوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
اس کے بعد اگلا سفر ہنگول نیشنل پارک کے خوبصورت، دلکش اور منفرد پہاڑوں سے ہوتے ہوئے مکران کوسٹل ہائی وے کے 10 کلومیٹر اندر پہاڑیوں میں واقع ہنگلاج ماتا نامی مندر کا ہوتا ہے جسے مقامی رہائشی ’نانی مندر‘ بھی کہتے ہیں۔
’یہ ہنگلاج ماتا مندر ہمارے لیے ہمارا سب کچھ ہے، جیسے مسلمانوں کا حج ہوتا ہیں اسی طرح ہمارا ہنگلاج ماتا ہے، یہاں آکر سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور ہمیں مُکتی ملتی ہے۔‘
اس تین روزہ تہوار میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے شریک ہندوؤں نے عبادات کے علاوہ منتیں مانیں۔
پاکستان بننے سے پہلے بھی عقیدت مند یہاں آتے تھے، جن میں مختلف ریاستوں کے حکمران شامل تھے۔
2006 میں انڈیا کے 86 رکنی وفد نے انڈیا کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی سربراہی میں ہنگلاج ماتا مندر کی یاترا کی تھی۔
یہاں آئے ہوئے زیادہ تر یاتریوں کا کہنا کے کہ اگر حکومت دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ حال ہی میں بننے والی کرتار پور راہداری کے طرز پر انڈیا میں آباد ایک ارب سے زیادہ ہندوؤں کو راستہ فراہم کرے تو یہ مذہبی عقیدت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معیشت میں بھی بہت اچھا کردار ادا کرسکتا ہے۔