افغانستان میں طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف فصیح الدین فطرت کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو بدخشاں میں ہونے والے گذشتہ دنوں کے مظاہروں کی تحقیقات کرے گی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کچھ مجرموں نے سرکاری فوجیوں پر حملہ کیا، جس کی وجہ سے یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ’کمیٹی کو واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنے اور وزیر اعظم کے دفتر کو مکمل رپورٹ پیش کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔‘
ضلع داریم کے مکینوں اور ہفتہ کے روز بدخشاں کے ضلع آرگو کے رہائشیوں نے اس وقت احتجاج کیا جب طالبان سکیورٹی دستے پوست کے کھیتوں کو تباہ کرنے کے لیے ان اضلاع میں گئے جس کے بعد مقامی باشندوں کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں دو شہری جان سے گئے۔ ایک شخص ضلع دریم گجب کہ دوسرا آرگو میں مارا گیا۔
بیان کے مطابق اس کمیٹی کے شمس الدین شریعت، وزارت داخلہ میں انسداد منشیات کے نائب وزیر عبدالحق اخوند، جنرل ڈائریکٹوریٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر رحمت اللہ نجیب۔ انٹیلی جنس اور بدخشاں کے علما کونسل کے سربراہ عبدالمومن دیگر رکن ہیں۔
طلوع نیوز نے دوسری جانب کئی سیاسی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ نگراں حکومت کو بدخشاں کے مکینوں کے جائز مطالبات پر غور کرتے ہوئے ان کے چیلنجز کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے۔
ایک سیاسی تجزیہ کار امان اللہ ہوتکی نے کہا: ’بطور افغان ہماری خواہش ہے کہ مقرر کردہ کمیشن منصفانہ تحقیقات کرے اور اس بات پر توجہ دے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔‘
ایک اور سیاسی تجزیہ کار سید اکبر آغا نے کہا: ’یہ اچھا ہو گا کہ وہاں کے لوگوں کو سنیں جنہیں مسائل کا سامنا ہے یا انہوں نے اپنے مسائل کے بارے میں آواز اٹھائی ہے۔‘
آرمی چیف نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو کلپ میں بدخشاں میں مظاہروں کو روکنے پر زور دیا۔ فصیح الدین فطرت نے بتایا کہ ان کی حکومت پوست کی فصل کو تلف کرنے میں سنجیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ ان مظاہروں کی اجازت نہ دینے کے لیے پرعزم ہے اور کسی کو بھی افیون اگانے اور منشیات کی سمگلنگ کی کارروائیوں کی اجازت نہیں دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فصیح الدین ، جن کا خود تعلق بھی بدخشاں سے ہے، کہا کہ لوگوں کو سنجیدگی سے نصیحت کی جانی چاہیے اور روکنا چاہیے۔
آن لائن میڈیا پر شائع ہونے والے فصیح الدین فطرت کے صوتی پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’اگر جاری احتجاج کو نہ روکا گیا تو طالبان جنگجو اور دیگر یونٹس بھیجے جانے پر مجبور ہوں گے۔‘
ارگو اور داریم کے اضلاع کا دورہ کرنے اور مقامی رہنماؤں سے بات کرنے کے بعد، صوبہ بدخشاں میں فصل تلف کرنے والی کمیٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس طرح نہیں تھا جیسا کہ میڈیا میں بتایا گیا تھا۔
’ہم نے عوام، علمائے کرام اور رہنماؤں سے بات کی، جیسا کہ کچھ لوگوں نے میڈیا میں افواہیں پھیلائی تھیں، ادھر ادھر، کچھ نہیں ہوا، جو چھوٹا سا مسئلہ تھا وہ حل ہو گیا ہے، ارگو میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور ان دونوں اضلاع کے لوگوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پوست کی تلفی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘
طالبان حکومت میں وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے قبل ازیں بی بی سی کو بتایا تھا کہ 'جب ہماری فورسز پوست کی فصل کو تباہ کرنے کے لیے اس علاقے میں گئیں تو کچھ لوگوں نے ان پر لاٹھیاں اور پتھر پھینکے جس سے وہ زخمی ہوئے۔'
تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کی فورسز گھروں میں داخل ہوئیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کچھ علاقوں میں گھروں میں پوست لگائی گئی تھی۔
ضلع ڈریم میں لوگوں کے احتجاجی اجلاس کی جاری کی گئی ویڈیوز میں، ایک عالم دین طالبان کی طرف سے لوگوں کے کھیتوں کو تباہ کرنے اور ایک معذور شہری کو مارنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ اس مذہبی سکالر نے مقامی لوگوں کے ساتھ طالبان کے سلوک کو
’ظالمانہ‘ قرار دیا۔
طالبان حکومت نے کچھ عرصے سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں پوست کو تلف کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے تاہم عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افیون کی کاشت پر پابندی سے افغان کسانوں کی آمدنی میں 1.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو ملک کی جی ڈی پی کے تقریبا 8 فیصد کے مساوی ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو مالی سالوں میں افغانستان کی حقیقی جی ڈی پی میں 26 فیصد کمی آئی ہے اور ملک کا معاشی منظر نامہ غیر یقینی ہے اور کم از کم 2025 تک جمود کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق بدخشاں کی سب سے بڑی آبادی تاجک شہریوں پر مشتمل ہے اور سابق غیرطالبان 20 سالہ دور حکومت میں، اس صوبے میں خدمات انجام دینے والے تمام گورنر تاجک تھے۔ تاہم گذشتہ سال ستمبر میں قندھار میں پیدا ہونے والے طالبان کے پشتون کمانڈر قاری محمد ایوب خالد پہلے غیر تاجک گورنر کے طور پر بدخشاں پہنچے اور اس صوبے کے امور کی ذمہ داری سنبھالی۔
طالبان کے چیف آف سٹاف قاری فصیح الدین فطرت اور فضائیہ کے سابق کمانڈر اور بدخشاں میں طالبان کے سابق گورنر مولوی امان الدین منصور طالبان کی صفوں میں دو تاجک کمانڈر ہیں جن کا تعلق بدخشاں سے ہے۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے شمالی صوبوں بالخصوص بدخشاں، تخار، بغلان اور پنج شیر میں طالبان کے تاجک اور پشتون کمانڈروں کے درمیان متعدد بار کشیدگی اور مسلح تصادم ہو چکا ہے۔ بغلان میں گذشتہ روز ملا عزیز نامی ایک تاجک نژاد طالبان کمانڈر کی آڈیو فائل سوشل میڈیا پر سامنے آئی، جس میں وہ اس گروپ کے کمانڈروں پر تنقید کر رہا ہے۔ ملا عزیز اس ویڈیو میں کہتے ہیں کہ پشتون طالبان مختلف بہانوں سے تاجکوں کی تذلیل کرتے ہیں اور انہیں حراست میں لیتے ہیں۔
تاہم، طالبان کے خلاف بدخشاں میں لوگوں کے احتجاج نے متعدد سیاست دانوں اور مخالفین کی توجہ بھی مبذول کرائی ہے۔ گرین پروسیس آرگنائزیشن کے رہنما امر اللہ صالح نے ایکس پر شائع ہونے والے ایک بیان میں لکھا: ’آپ کو یاد ہے کہ میں نے کہا تھا کہ ایک دن یہ شریر، متعصب اور جاہل گروہ لوگوں کے ہاتھوں پامال ہو جائے گا۔ بدخشاں کی بے ساختہ بغاوت پر مبارک باد۔‘