آل پاکستان انجمن تاجران نے ملک بھر میں ہڑتال کے بعد ایف بی آر سے مذاکرات ناکام ہونے پر تاجر رہنماؤں کے مشاورتی اجلاس کے بعد اسلام آباد مارچ کا فیصلہ کرلیا۔ لاہور میں ہونے والے اس اجلاس کے بعد تاجر رہنماؤں نے ملک بھر سے مختلف شہروں کے نمائندوں کو 9 اکتوبر کے روز اسلام آباد میں جمع ہو کر مارچ کی کال دے دی۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط سمیت تاجروں کے لیے طے شدہ پالیسیاں 30 ستمبر کو دوبارہ بحال کردی گئی ہیں۔
انجمن تاجران کے مطابق چیئرمین ایف بی آر کوئی بات سننے کوتیار نہیں، ایسا سلوک کیا جارہا ہے جیسے تاجر طبقے کو معاشی طور پر تباہ کرنا مقصود ہو۔ جن پالیسیوں کے بارے میں وزیر اعظم اور مشیر خزانہ تاجروں کے تحفظات دور کرنے کے لیے متفق ہوئے تھے ان پر عمل درآمد سے بھی انکار کر دیا گیا ہے۔
تاجروں کی حکمت عملی:
پاکستان کے تاجروں کی بڑی تنظیم آل پاکستان انجمن تاجران کے چیئرمین خواجہ شفیق کے مطابق ’حکومت کاروباری طبقہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے کاروبار تباہ کرنے پر عمل پیرا ہے۔‘ انہوں نے کہا ’تاجروں کا ایف بی آر کے ساتھ مذاکراتی عمل ناکام ہوچکا ہے۔ اب اسلام آباد مارچ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایف بی آر کے ساتھ شناختی کارڈ کی شرط کے خاتمے سمیت سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور فکسڈ ٹیکس سکیم کے خدوخال پر اتفاق نہ ہوسکا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اسلام آباد مارچ کیا صرف احتجاج تک محدود ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’اگلے لائحہ عمل کو اختیار کرنے کے لیے ملک بھر کے تاجر نمائندے اسلام آباد پہنچ کر مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آل پاکستان انجمن تاجران کے سیکرٹری جنرل نعیم میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’حکومت نے تاجروں کی شٹر ڈاؤن ملکی ہڑتال کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کی کال دئیے جانے پر تاجروں کے تحفظات دور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بجٹ میں عائد ٹیکس شرائط کو بھی دو ماہ کے لیے عارضی طور پر روکا گیا تھا لیکن اب جائز مطالبات سے بھی حکومتی نمائندے منحرف ہو چکے ہیں، اس لیے اسلام آباد مارچ کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں۔‘
انہوں نے کہا ’ایف بی آر حکام تاجروں سے معاملات طے کرنے کی بجائے انہیں سخت کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں۔‘ انہوں نے دعوی کیا کہ ملک بھرکی تمام چھوٹی بڑی تاجر تنظیمیں ان کی کال کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے بتایا ’کچھ عرصہ پہلے جب تاجروں نے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں ہڑتال کی تھی تو سب کاروبار اور دوکانیں بند ہونے کے باعث ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ عوامی مشکلات اس کے علاوہ تھیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومتی وزرا تاجروں سے ہمدردی اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کر کے معاملہ حل کرانے کی بجائے سیاست کرتے رہے اور بیانات دیئے کہ ہڑتال ناکام ہوگئی ہے۔ اس بار بھی حکومتی مشینری تاجر طبقے کے مسائل حل کرنے کی بجائے تاجروں کو تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
تاجروں کے مسائل ہیں کیا؟
کاروباری طبقہ کے مطالبات درج ذیل ہیں:
- حکومت کی جانب سے لین دین کی رسید پر شناختی کارڈ نمبر لکھنے کی شرط ختم کر دی جائے۔
- تھوک و پرچون فروشوں (ڈسٹری بیوٹرز، ریٹیلرز) سے کل آمدن کی بجائے صرف خالص منافع پر محصول لیا جائے۔
- پرچون فروشوں (ریٹیلرز) پر فکسڈ ٹیکس کا قانون لاگو کیا جائے۔
- نئے اور پرانے موبائل فونز پر لگی ڈیوٹی پر نظر ثانی کی جائے۔
ان مطالبات سے صرافہ بازار، کپڑا مارکیٹوں، کراکری، اسٹیشنری، کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں سمیت تمام کاروباری حضرات نے اتفاق کرتے ہوئے ہڑتال کی تھی۔
تاجر رہنماؤں کے مطابق حکومت نے ان سے مشاورت کے بغیر ایسی ٹیکس شرائط عائد کیں جن سے محصولات کی وصولی کی بجائے ذرائع آمدن ہی شدید متاثر ہورہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ زمین کی پیمائش کے مطابق دکانوں پر ٹیکس کا نظام بھی مناسب نہیں کیوں کہ بڑے پیمانے پر کام کرنے والے کاروباروں میں پلاسٹک کے برتن، لوہے کی اشیا فروخت کرنے والے اور دوسری ورکشاپس کا احاطہ ضرور بڑا ہوتا ہے لیکن آمدن دوسرے کاروباروں جتنی نہیں ہوتی۔ جب کہ دوسری جانب صرافہ بازار، کرنسی اور سپیئرپارٹس کا کام کرنے والوں کے پاس احاطہ کم لیکن کاروبار کروڑوں میں ہوتا ہے۔ لہذا زمینی رقبے کے لحاظ سے چھوٹے کام کرنے والے زیادہ ٹیکس کیسے ادا کریں؟ کل آمدن کی بجائے منافع پر ٹیکس کی تجویز بھی مسترد کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ٹیکسوں کے خلاف تاجروں کی ایک روزہ ملک گیر ہڑتال کے باعث لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں بڑے کاروباری مراکز اور دکانیں بند ہونے سے ملکی معیشت کو 20 سے 25 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
جولائی میں کیے جانے والے تاجر برادری کے اس احتجاج کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے کراچی کے ایک روزہ دورے میں مختلف کاروباری شخصیات سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد انہیں حکومت کے اٹھائے جانے والے مذکورہ اقدامات کے بارے میں قائل کرنا تھا۔
ان اقدامات میں سرِ فہرست پانچ صنعتی شعبوں پر زیرو ریٹنگ سہولت ختم کر کے واپس 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا اور 50 ہزار سے زائد کسی بھی قسم کی خرید و فروخت کو شناختی کارڈ کا ریکارڈ رکھنے سے مشروط کرنا شامل تھا۔ حکومتی موقف کے مطابق سیلز ٹیکس کی بحالی سے اضافی 70 سے 80 ارب روپے کی آمدن متوقع ہو سکتی ہے جب کہ شناختی کارڈ کی شرط زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کامیاب حربہ ثابت ہو گی۔
در ایں اثنا مولانا فضل الرحمن نے بھی اکتوبر میں اسلام آباد مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔