امریکی کانگریس میں محکمہ خارجہ کی پیش کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے امریکی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ تنقید ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیلی افواج نے غزہ کے جنوبی شہر رفح کے ارد گرد کارروائیاں تیز کر دی ہیں جہاں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ امریکہ کی اسرائیل پر اب تک کی سب سے سخت تنقید ہے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ نے کہا کہ ’اس بات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق امریکی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے یا نہیں۔‘
تاہم بائیڈن انتظامیہ کا کہنا تھا ’غزہ میں جنگ کی افراتفری کی وجہ سے وہ ان مخصوص واقعات کی تصدیق نہیں کر سکی جہاں ان ہتھیاروں کا استعمال مبینہ خلاف ورزیوں میں زمرے میں آ سکتا ہے۔‘
یہ تنقید کانگریس کو پیش کی جانے والی نئے نیشنل سکیورٹی میمورنڈم (این ایس ایم) کے تحت درکار 46 صفحات پر مشتمل محکمہ خارجہ کی ایک اَن کلاسیفائیڈ رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تنقید سے امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہونے کا خطرہ ایک ایسے وقت میں ابھر رہا ہے جب رفح پر حملہ کرنے کے اسرائیل کے منصوبے پر اتحادیوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ اس اقدام کے خلاف تل ابیب کو بارہا خبردار کر چکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے پہلے ہی ایک بڑی پالیسی تبدیلی کے تحت اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روک دی ہے۔
محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کئی تضادات موجود ہیں مثال کے طور پر یہ کہ ان کے پاس عام شہریوں کو نقصان پہنچانے کی متعدد معتبر رپورٹیں موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے واشنگٹن کے ساتھ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کو فروغ دینے کے لیے تعاون نہیں کیا۔
تاہم ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کا قطعی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آیا کسی بین الاقوامی قانون کی کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا: ’امریکی ساختہ ہتھیاروں پر اسرائیل کے نمایاں انحصار کے پیش نظر یہ اندازہ لگانا مناسب ہے کہ NSM-20 کے تحت فراہم کیے گئے دفاعی آلات کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز سات اکتوبر سے استعمال کر رہی ہیں جو اس کی بین الاقوامی قوانین (آئی ایچ ایل) کی ذمہ داریوں یا سویلینز کے کم نقصان کے لیے قائم کردہ بہترین طریقوں سے سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اسرائیل نے اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے مکمل معلومات شیئر نہیں کی ہیں کہ آیا NSM-20 کے تحت فراہم کیے گئے امریکی ہتھیاروں کو خاص طور پر غزہ یا مغربی کنارے اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں کی گئیں کارروائیوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
’جن پر رپورٹ کی مدت کے دوران بین الاقوامی یا انسانی حقوق کے قوانین (آئی ایچ آر ایل) کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔‘
تاہم انتظامیہ نے کہا کہ اسے اب بھی اسرائیل کی قابل اعتماد یقین دہانیاں ملتی ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق امریکی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
اس رپورٹ کے بعد ڈیموکریٹک سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ’تمام مشکل سوالات سے آنکھیں بند کر لیں اور اس بات کو قریب سے دیکھنے سے گریز کیا کہ آیا اسرائیل کے طرز عمل کا مطلب فوجی امداد میں کمی ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ رپورٹ تضاد سے بھرپور ہے کیونکہ اس میں یہ نتیجہ تو اخذ کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں موجود ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں عدم تعمیل کے شواہد نہیں ملے۔‘
’ضرورت سے زیادہ‘ شہری نقصان
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے سات ماہ سے جاری حملوں میں 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی جان سے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
غزہ کی پٹی میں بڑھتی ہوئی اموات اور تباہی کے ساتھ اسرائیل کے فوجی طرز عمل کی تحقیق کے مطالبے میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم محکمہ خارجہ میں امریکی حکام اس معاملے پر منقسم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روئٹرز نے اپریل میں رپورٹ کیا تھا کہ محکمے کے اندر کم از کم چار بیوروز کے عہدیداروں نے غزہ میں اسرائیل کے طرز عمل پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مخصوص مثالیں پیش کیں جہاں اسرائیل قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپریل میں کہا تھا کہ ’اسرائیل کو فراہم کردہ امریکی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں شامل ہے جہاں مہلک طاقت کے استعمال سے شہریوں کی اموات اور زخمی ہونے کے کی مثالیں موجود ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’امریکی حکومت نے متعدد رپورٹوں کا جائزہ لیا جو اسرائیل کی اپنی قانونی ذمہ داریوں اور شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے بہترین طریقوں کی تعمیل کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں۔
’ان میں بنیادی شہری ڈھانچے، گنجان آبادی والے علاقوں پر حملوں اور دیگر اقدامات شامل ہیں جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا ’متوقع شہری نقصان کی اطلاع فوجی مقاصد کی نسبت ضرورت سے زیادہ تھی۔‘
جمعے کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کے بعد کے عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے امریکی اور دیگر بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کیا۔