ایک امریکی عہدیدار نے منگل کو بتایا ہے کہ واشنگٹن نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کو بموں کی فراہمی اس خدشے کے پیش نظر روک دی تھی کہ وہ غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملہ کر دے گا۔
اس طرح غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صدر جو بائیڈن نے اپنے اہم امریکی اتحادی کو فوجی امداد کی فراہمی روکی۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ واشنگٹن نے 1800، 2000 پاؤنڈ (907 کلوگرام) بموں اور 1700، 500 پاؤنڈ (226 کلوگرام) بموں کی فراہمی اس وقت روک دی، جب اسرائیل نے (رفح میں) ایک بڑی زمینی کارروائی کے بارے میں امریکی خدشات کو ’مکمل طور پر دور‘ نہیں کیا۔
یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب منگل کو اسرائیل کی جانب سے مصر کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ پر ٹینک بھیجنے اور بندش کو ’ناقابل قبول‘ قرار دے کر امریکہ نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
ہتھیاروں کی فراہمی روک کر جو بائیڈن نے اس انتباہ پر عمل کیا ہے، جب انہوں نے اپریل میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو خبردار کیا تھا کہ امریکی پالیسی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اسرائیل غزہ میں عام شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔
سینیئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ہتھیاروں کے حوالے سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب اسے علم ہوا کہ اسرائیل رفح میں ایک بڑے زمینی آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، جس کی واشنگٹن نے سختی سے مخالفت کی ہے کیونکہ وہاں 10 لاکھ سے زائد افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیلی اور امریکی حکام متبادل (اقدامات) پر بات چیت کر رہے تھے لیکن ’وہ بات چیت جاری ہے اور ہمارے خدشات پوری طرح سے دور نہیں ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جیسا کہ اسرائیلی رہنما اس طرح کے آپریشن کے بارے میں فیصلہ کن نقطہ نظر پر پہنچ رہے تھے، ہم نے اسرائیل کو مخصوص ہتھیاروں کی مجوزہ منتقلی کا بغور جائزہ لینا شروع کیا جو رفح میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ یہ (جائزہ) اپریل میں شروع ہوا تھا۔‘
امریکی عہدیدار کے مطابق واشنگٹن کی توجہ ’خاص طور پر‘ سب سے بھاری 2000 پاؤنڈ بموں کے استعمال اور ’ان کے گنجان آباد شہری علاقوں میں پڑنے والے اثرات پر ہے، جیسا کہ ہم نے غزہ کے دوسرے علاقوں میں دیکھا ہے۔‘
عہدیدار نے کہا: ’ہم نے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ اس (ہتھیاروں کی) کھیپ کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ اب بھی دیگر ہتھیاروں کی منتقلی کا جائزہ لے رہا ہے، جن میں JDAMs کے نام سے جانی جانے والی بم کٹس کا استعمال بھی شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس سے قبل کہا تھا کہ اسرائیل نے منگل کو میں رفح میں فوجی کارروائی کا وعدہ کیا تھا اور یہ کہ یہ ایک ’محدود آپریشن‘ ہوتا، نہ کہ مکمل حملہ۔
اپنے رپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نومبر میں دوبارہ انتخابی جنگ کا سامنا کرنے والے جو بائیڈن کو اسرائیل کی حمایت پر امریکہ میں دباؤ کا سامنا ہے اور امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے نتیجے میں پولیس کریک ڈاؤن اور ہزاروں گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین جین پیئر نے منگل کے اوائل میں رفح کراسنگ پر اسرائیلی قبضے کے حوالے سے ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ ’جو کراسنگ بند کر دی گئی ہیں انہیں دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے، ان کا بند ہونا ناقابل قبول ہے۔‘
دوسری جانب فائربندی کے حوالے سے اسرائیل، حماس، امریکہ، قطر اور مصر کے مذاکرات منگل کو دوبارہ شروع ہوئے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا: ’دونوں فریقوں کے موقف کے قریبی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بقیہ خلا کو ختم کرنے کے قابل ہو جائیں اور ہم اس عمل کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے جا رہے ہیں۔‘
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 1,170 سے زائد اموات ہوئیں، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی میں غزہ پر زمینی و فضائی حملے شروع کیے اور حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق ان کارروائیوں میں 34 ہزار سے زائد اموات ہوئیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔