امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں تقریباً سات ماہ سے جاری جارحیت کے دوران بدھ کو پہلی بار واضح الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر رفح پر حملہ کیا گیا تو وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دیں گے۔
خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جو بائیڈن نے اس حقیقت پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ فلسطینی علاقے پر امریکی بم استعمال کرنے سے عام شہریوں کی جانیں گئیں۔
صدر جو بائیڈن کا یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں امریکہ نے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر امریکی بموں کی ترسیل روک دی تھی کیونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ اسرائیل مصر کی سرحد کے قریب پناہ لینے والے فلسطینی بے گھر افراد سے بھرے شہر رفح پر ایک بڑے حملے کے لیے تیار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائیڈن نے کہا: ’اگر وہ رفح میں داخل ہوتے ہیں تو میں وہ ہتھیار فراہم نہیں کروں گا جو استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ان ہتھیاروں کی فراہمی روک دی جائے گی جو تاریخی طور پر رفح اور دیگر شہروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
جو بائیڈن طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہر سال بھیجے جانے والے تین ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے کانگریس پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔
لیکن امریکی حکام نجی طور پر کہتے ہیں کہ انہیں یہ کام مجبوراً کرنا پڑا کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے صدر بائیڈن کی طرف سے کئی مرتبہ کھلے عام رفح پر حملے سے باز رہنے کی درخواستوں کے باوجود اس فلسطینی شہر پر حملہ کرنے پر اصرار کیا۔
ہتھیاروں کی ترسیل کو محدود کرنے کے لیے اپنی ہی پارٹی کے بائیں بازو کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے گذشتہ ہفتے کچھ بموں کی فراہمی روک دی تھی۔
بائیڈن نے کہا: ’ان بموں کے نتیجے میں غزہ میں عام شہری جان سے گئے۔ یہ بالکل غلط ہے۔‘
بائیڈن محتاط ہیں کہ اگر وہ اسرائیل کی حمایت میں مزید آگے بڑھتے ہیں تو کہیں آئندہ انتخابات میں اعتدال پسند ووٹروں کی حمایت سے محروم نہ ہو جائیں جبکہ نتن یاہو جانتے ہیں کہ انہیں ایسے وقت میں امریکی حمایت کی ضرورت ہے جب اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں بائیڈن نے زور دے کر کہا کہ ’ہم اسرائیل کی سکیورٹی سے نہیں بلکہ (شہری) علاقوں میں جنگ کی اسرائیلی صلاحیت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔‘
بائیڈن انتظامیہ نے اس سے قبل نتن یاہو سے ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے تھے جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو منظور ہونے دینا شامل ہے، جس میں فائر بندی کی حمایت کی گئی تھی۔
ماضی میں بڑی امریکی مداخلتوں نے اسرائیل کے رویے کو تبدیل کیا۔ سنہ 1991 میں اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے امریکی قرضوں کی گارنٹی روکنے کے بعد اسرائیل نے میڈرڈ کانفرنس میں شرکت کی تھی جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل شروع ہوا تھا۔
1956 میں معاشی خطرات سمیت شدید امریکی دباؤ نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور فرانس کو مصر سے نہر سوئز پر قبضہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔