پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ تین دن سے جاری پرتشدد احتجاج اور لانگ مارچ کو ختم کرنے اور مظاہرین کے مطالبوں کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مابین بات چیت کا پہلا دور ناکام ہو گیا، جس کی تصدیق کمیٹی کے رکن عمر نذیر نے کی ہے۔
اتوار کی رات فریقین میں راولا کوٹ میں کئی گھنٹے مذاکرات ہوئے، جس کے بعد عمر نذیر نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں الزام عائد کیا کہ حکومت ان کے مطالبات حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
بات چیت کی ناکامی کے بعد راولا کوٹ میں مختلف علاقوں سے آئے مظاہرین اب کل صبح مظفر آباد کی جانب اپنا لانگ مارچ دوبارہ شروع کریں گے۔
احتجاج اور لانگ مارچ کی وجہ سے مظفرآباد ڈویژن میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے پیر کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر مظفر آباد ندیم احمد جنجوعہ نے ایک بیان میں بتایا کہ مظفر آباد میں تعلیمی اداروں کے علاوہ تمام ضلعی سرکاری دفاتر بھی بند رکھے جائیں گے۔
وزہر اعظم شہباز شریف نے ہنگامی اجلاس بلا لیا
وزیر اعظم شہباز شریف نے کشمیر کے معاملے پر پیر کو دن 12 بجے اعلیٰ سطحی کا اجلاس طلب کیا ہے، جس میں پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر کے وزیر اعظم سمیت دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے۔
فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں: صدر زرداری
صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی کشیدہ صورت حال کے حوالے سے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل بات چیت اور باہمی مشاورت سے حل کریں۔
آج ایوان صدر سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر زرداری سے اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز سے تعلق رکھنے والے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ارکان کے وفد نے ملاقات کی، جس میں صدر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں او عوام کو ذمہ داری سے کام لینا چاہیے تاکہ دشمن عناصر حالات کا فائدہ نہ اٹھا سکیں
بیان کے مطابق وفد نے صدر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حالیہ افسوس ناک واقعات سے آگاہ کیا۔ صدر نے موجودہ صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور پولیس اہلکار کی موت پر تعزیت کی۔
صدر نے کہا کہ ’کشمیری عوام کے مطالبات کو قانون کے مطابق پورا کیا جانا چاہیے۔ موجودہ صورت حال کا حل نکالنے کے لیے عوام کی شکایات پر وزیر اعظم پاکستان سے بات کروں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف اضلاع میں ’سستی بجلی اور سستے آٹے کے لیے‘ احتجاج اور لانگ مارچ جاری ہے، جس میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔
ہفتے کو میرپور میں فائرنگ سے سب انسپکٹر عدنان فاروق کی موت ہو گئی تھی۔ کمشنر میرپور ڈویژن چوہدری شوکت نے میرپور کے علاقے اسلام گڑھ میں پیش آئے واقعے میں عدنان کی موت کی تصدیق کی۔
حکومت نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے رینجرز طلب کی تھی، جس کے بعد رینجرز کی تین کمپنیاں آج اتوار کو صبح کوہالہ کے مقام سے کشمیر میں داخل ہوئیں لیکن دو گھنٹے کوہالہ قیام کے بعد انہیں واپس بھیج دیا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’رینجرز کی تعیناتی کشمیر میں موجود سرکاری املاک کی حفاظت کے لیے کی گئی۔ تاہم اب انہیں واپس مری سٹیشن پر بھیجا جا رہا ہے۔‘
عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر کے مطابق ’حکومت کی طرف سے رینجرز کو واپس بھیجنا احسن اقدام ہے ورنہ ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظفرآباد سے احتجاجی مظاہرے میں شریک 150 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا جبکہ ’اس سے دگنی تعداد میں لاپتہ ہیں۔‘
شوکت نواز میر کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ’احتجاج پر امن ہے اور شرپسند عناصر سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا کوئی تعلق نہیں۔‘
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر جاری اس احتجاج میں اب تک وزیر اعظم کشمیر کے مطابق 50 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
تین گھنٹے کے لیے دکانیں کھولنے کا اعلان
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے کشمیر بھر میں عوام کی سہولت کے لیے دن تین بجے سے شام چھ بجے تک پھل، سبزی، میڈیکل سٹورز، ہوٹلز، بیکریز، گھریلو ایل پی جی گیس کی دکانیں اور کریانہ سٹورز کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
ترجمان جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطابق کشمیر میں مکمل شٹر ڈاؤن کی وجہ سے عام شہریوں کو اشیائے ضروریہ کے لیے مشکلات کا سامنا تھا جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا۔ تاہم ان اوقات کے علاوہ مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام جاری رہے گا۔
لانگ مارچ کے مظاہرین
مظفرآباد کے لیے کشمیر کے مختلف اضلاع میرپور، کوٹلی، چکسواری، نکیال، تتہ پانی اور ہجیرہ سے نکلنے والے لانگ مارچ مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے آج راولاکوٹ پہنچنے کے امکانات ہیں جہاں سے کشمیر کے دیگر علاقوں سے آئے جلوسوں کی شمولیت کے بعد مظاہرین مرکزی لانگ مارچ کی شکل میں کل راولاکوٹ سے مظفرآباد کی جانب بڑھیں گے۔
انتظامیہ نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے مظفرآباد آنے والی تمام سڑکوں کو پتھر، مٹی اور درخت ڈال کر بند کر دیا ہے۔
کمشنر میرپور ڈویژن چوہدری شوکت علی نے بتایا کہ میرپور ڈویژن میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے 70 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ میرپور ڈویژن میں جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔
ڈی ایس پی مظفرآباد اشتیاق گیلانی کے مطابق 50 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جبکہ 17 پولیس اہلکار زخمی ہیں۔
حکومت نے گذشتہ رات کشمیر بھر میں موبائل انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا تھا جسے اب جزوی طور پر بحال کیا جا رہا ہے۔
’ریلیف دینے کے لیے ترقیاتی بجٹ کو کٹ لگانا پڑا تو لگائیں گے‘
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ’آٹے اور بجلی میں ریلیف دینے کے لیے ترقیاتی بجٹ سے بھی کٹ لگانا پڑا تو لگائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی جس سطح پر بات کرنی چاہتی ہے ہم تیار ہیں، جو مطالبات حکومت پاکستان سے جڑے ہیں انہیں وفاق کے سامنے اٹھایا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ ہوا، حکومت اس معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کا تشویش کا اظہار
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کشمیر میں صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ انتشار اور اشتعال کی صورت حال میں بعض عناصر ہمیشہ سیاسی نمبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’بحث مباحثہ اور پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہیں لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت قطعی طور پر نہیں دی جائے گی۔‘
وزیر اعظم کا کہنا تھا: ’میں نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سے بات کی وہاں مسلم لیگ ن کے تمام عہدے داروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کریں اور میں فریقین سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے مطالبات پرامن طریقے سے پورے کروائیں۔‘