اس روز گھر سے نکلتے ہوئے دل چاہ رہا تھا کہ امی سے کچھ کہوں، لیکن کمیونیکیشن گیپ۔۔۔
انہیں دور سے اللہ حافظ کہہ کر گاڑی میں جا بیٹھی۔ گلی ختم ہونے تک میری نظر گھر کے گیٹ پر اٹکی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دوبارہ یہ دروازہ دیکھ نہیں پاؤں گی۔
راستے میں، اپنی بہن کو میسج کیا کہ سنو تمہارا اگر بیٹا ہوا، تو نام جرار حیدر رکھنا اور اگر بیٹی ہو، تو بتول، شاید وہ میری کیفیت نہیں سمجھ سکی، میری حالت اور خواہش، دونوں ہی کو مذاق میں ٹال دیا۔
سارا رستہ، اپنے موبائل میں ابو کی تصویریں کھینچتی رہی کہ اگلے جہان جانے سے پہلے، موبائل میں ان کا چہرہ دیکھتی رہوں گی اور وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ایئرپورٹ داخل ہونے، سکیورٹی چیکنگ اور بورڈنگ کے معامالت سمجھانے میں لگے تھے۔
ابا بے چارے کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی یہ اولاد اپنے ذہن میں ایک الگ نقشہ کھینچے بیٹھی تھی، اسے ایئرپورٹ کے اندر کسی معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اسے تو بس یہ پتہ تھا کہ اب اگلے جہان میں ملاقات ہو گی۔
ایک کروڑ 10 لاکھ میں سے ایک چانس ہوتا ہے کہ آپ ہوائی جہاز میں بیٹھیں اور وہ کریش ہو جائے، یہ ایک شماریاتی تحقیق تھی لیکن اس بار وہ ’ایک‘ جہاز میرا والا ہونا تھا اور اس بات کا مجھے یقین تھا۔
ایئرپورٹ پہنچتے ہی، گاڑی سے اتر کے ابا نے میری ایک تصویر کھینچی، ان کا ارادہ تھا کہ اس تصویر کو وہ فیس بک پر لگائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ میری بیٹی پہلی بار ہوائی جہاز میں سفر کر رہی ہے۔
بیٹی کا انہیں کیا پتہ کہ وہ اس لمحے کن سوچوں میں ہو گی۔ عجیب سی کشمکش تھی، ذہن میں اپنی اب تک کی زندگی، فلم جیسی چل رہی تھی، قدم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے موت کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہوں، ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ مہ جبیں، اب یہاں سے فرار ممکن نہیں!
انسان بھی عجیب ہے، ڈرتا ہے اور ڈر کا سامنا کرنے کی خواہش بھی جان نہیں چھوڑتی۔ وہ لمحہ جب ابو کو بائے کہا اور اندر داخل ہوئی تو ایسے لگا جیسے اب ہاتھ سے سب کچھ نکل گیا ہے۔
ماں باپ، بہن بھائی سب سے دور جا رہی ہوں، پتہ نہیں، میرے بعد گھر کے حاالت کیسے ہوں گے، جب جہاز کریش ہو گا تو ابو امی کو پتہ کیسے چلے گا، کیا میرے جسم کا کوئی حصہ ان تک پہنچ سکے گا؟ بس یہی سوال تھا، میں تھی، اور میرے دھیرے دھیرے آگے بڑھتے قدم۔
25 سال کی لڑکی پہلی بار ایئرپورٹ دیکھ رہی تھی، لیکن سوسائٹی کا پریشر ایسا کہ ناقابل بیان، میں نے بھی کوشش کی کہ میری باڈی لینگوئیج سے ایسا محسوس نہ ہو کہ میں جہاز مین پہلی بار سفر کر رہی ہوں لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ اس لڑکی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ سکیورٹی چیکنگ کے لیے راستہ کون سا ہے۔
بچپن میں، جب محرم کی مجالس میں شریک ہونا ہوتا تھا اور کسی امام بارگاہ کا صحیح پتہ معلوم نہیں ہوتا تھا تو امی کہتی تھیں، بس یہ ہجوم جہاں جا رہا ہے، اسی کے پیچھے چلتے جاؤ۔ وہی بات میرے ذہن میں تھی، تو لوگ جہاں جا رہے تھے، میں بھی وہیں جا رہی تھی۔
بالاخر میں ٹکٹ کاؤنٹر تک پہنچی اور موبائل میں اپنا ٹکٹ دکھا کر بورڈنگ کارڈ حاصل کیا۔ امی نے دو باتیں سمجھائی تھیں، ایک یہ کہ کچھ بھی ہو، ونڈو سیٹ مت لینا، دوسری یہ کہ کوشش کرنا کہ سیٹ وہ نہ ہو جہاں سے جہاز کے پر نظر آئیں، لیکن اپنا دماغ اس وقت ایک فیصد بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
پہلی بار ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے کو کیسے معلوم کہ یہ سیٹ کون سی ہے اور وہ کون سی، مجھ سے تو بس یہ پوچھا گیا کہ میم، آپ اپنا بیگ رکھوانا چاہیں گی؟
کانپتے ہوئے ہاتھوں سے، میں نے بیگ کو بھی اللہ حافظ بول دیا۔ تمام معاملات سے فارغ ہو کر، اب میں ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنج میں پہنچ گئی تھی۔
بھلا ہو میرے ابو کا جو پورا وقت میرے ساتھ کال پر تھے، جنہیں علم تھا کہ میں گھبرائی ہوئی ہوں تو وہ میرا دھیان بٹانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ ان کا فون بند ہوتا تو امی کی کال آ جاتی، ‘ہاں جی، سامنے جہاز نظر آ رہے ہیں؟’ میرا دل میں جواب یہ تھا کہ ‘جی بالکل، مجھے میری موت کا سامان بہت اچھے سے نظر آ رہا ہے۔‘
ملتان سے کراچی فلائٹ کا وقت ڈیڑھ گھنٹے بتایا جا رہا تھا اور میں لاؤنج میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کوئی کیسے ایک ڈبے جیسی مشین میں بند رہ سکتا ہے؟
اتنے میں آواز آئی کہ فلاں سیٹ نمبر سے فلاں تک کے مسافر جہاز میں تشریف لے جائیں۔ بس وہ ایک لمحہ، وہ ایک لمحہ۔۔۔ اب بچنے کا کوئی چانس نہیں تھا۔
اب قدم پیچھے بھی نہیں ہو سکتے تھے، امی اور ابو کو صحیح سے مل بھی نہیں سکی، میری موت کا سن کر فلاں فلاں آئے گا یا نہیں، ان سب سوچوں کے ساتھ میں ایک خاتون کے پیچھے پیچھے چلتی جا رہی تھی۔
جہاز میں قدم رکھتے ہی پھر سے ابو کی کال آئی اور اب کی بار میں چاہتی تھی کہ یہ کال کبھی بند نہ ہو۔ میں ایک ایک لمحے کی اپ ڈیٹ ابو کو دے رہی تھی۔۔۔۔ اور میرے نصیب! ونڈو سیٹ تھی اور سامنے جہاز کا یہ بڑا سا پر ۔۔ اب جہاز میں سفر کرنے کا اتنا بڑا فیصلہ کر لیا تو یہ بھی دیکھ لیں گے، فہمیدہ ریاض کی نظم میں ہے کہ جو ہو گا، دیکھا جائے گا، اور میرے پاس اب دیکھنے کے علاوہ کوئی اور کام رہا بھی نہیں تھا۔
اب موبائل فون بند کرنے کی باری آئی، ایک بار پھر ابو کو گڈ بائے بولا اور امی کو میسج بھیج دیا۔ جہاز کا عملہ حفاظتی انتظامات کے حوالے سے آگاہ کرنے میں لگا تھا اور اس وقت میں سیٹ بیلٹ سے الجھ رہی تھی۔ سامنے سیٹ میں ایک گائیڈ بک سے بیلٹ باندھنے کا طریقہ کار معلوم ہوا، بہرحال اب میں موت کا سفر طے کرنے کے لیے بالکل تیار تھی۔
آہستہ آہستہ رینگتے جہاز نے پل بھر میں ایسی سپیڈ پکڑی کہ مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی، اس سب کے درمیان ایک آواز آتی ہے، ایک صاحب اعلان کرتے ہیں کہ جہاز ٹیک آف کرنے والا ہے۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے اگلی سیٹ کو زور سے پکڑ لیا، مجھے اس کیفیت کا اندازہ نہیں تھا، خوف کا عالم یہ تھا کہ میں نے فوراً میرا دل میرے حلق میں تھا اور میری زبان پر صرف ایک جملہ، کہ یا اللہ، اس بار بچا لیں، جہاز اڑا اور ساتھ میرا سانس بھی لے اڑا۔
ساتھ بیٹھی خاتون نے مجھ پر تسبیح کا ورد کرنا شروع کر دیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے پورے جسم کا خون میرے دماغ میں پہنچ گیا ہے، میرے ہاتھ پیر بے جان اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ اس ایک لمحے ہر چیز کا ستیاناس ہو گیا تھا، میری سو کالڈ باڈی لینگوئج، میرا اعتماد، جسے میں اب تک برقرار رکھے ہوئے تھی، پاس بیٹھے ہر بندے کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بچی کا پہلا ہوائی سفر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ لڑکی جو دوستوں کے لاکھ اصرار کے باوجود کبھی جھولے میں بھی نہ بیٹھی ہو، وہ جہاز کے جھولے لینے پہنچی ہوئی تھی۔
میں اپنے گھر کا وہ بچہ ہوں جسے موشن سکنیس کا مسئلہ ہمیشہ سے ہے، ارے میرے لیے تو مری کے پہاڑوں کے بیچ میں گاڑی رکوائی جاتی تھی، یہ تو جہاز تھا۔ ایک جھولا لیتے ہوئے اگر طبیعت بے قابو ہو جائے تو بندہ جھولے والے بھائی سے کہہ کر اسے رکوا سکتا ہے، لیکن یہاں، جہاز والے بھائی کہاں رکتے ہیں!
کھڑکی سے باہر دیکھتی تھی تو نیلے آسمان کا راج، نظریں وہاں سے ہٹا کر جہاز میں بیٹھے لوگوں پر ڈالتی تھی تو ہر چہرے پر صرف اپنے جیسا خوف دیکھنے کی خواہش تھی، مگر ایسے پرسکون چہرے کہ ما شاللہ۔ میرے کان اس پورا وقت بند تھے، کئی جگہوں پر جب پرواز ناہموار ہوتی تو میں اپنے آپ کو کفن میں لپٹا ہوا تصور کر لیتی۔
جیسے ہی جہاز کا عملہ مائیک میں کچھ بولنے لگتا تو مجھے یقین ہوتا کہ اب جہاز کے کریش ہونے کا اعلان کیا جائے گا۔
ڈیڑھ گھنٹے کے اس سفر میں ایک گھنٹہ میرا جسم ’پینک‘ کی حالت میں تھا، جہاز کا ہلنا اور پرواز کا ناہموار ہونا، میرے لیے سب کچھ غیر معمولی تھا۔ جہاز ذرا ہلتا تو میں یہاں وہاں مدد کے لیے نظر گھماتی۔ کچھ ہمت کر کے بادلوں پر نظر دوڑائی تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ دور دور تک کچھ نہیں تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز میں پورا ایک گھنٹہ، میں اپنے ڈر سے لڑتی رہی اور کہتی رہی کہ اب یا تو آر ہے یا پار۔
وہیں میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کے بعد کبھی ہوائی جہاز کا نام نہیں لوں گی۔ اتنی شدت سے منزل پر پہنچنے کی خواہش اس سے پہلے مجھے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
میں کھڑکی سے باہر ہی دیکھتی رہی، سورج جیسے مجھے آنکھ مار رہا ہو، میرا مذاق بنا رہا ہو، اور بادل ایسے جیسے مجھے تسلی دے رہے ہوں، اور میں خدا سے مانگتی رہی، بس ایک موقع، ایک اور زندگی۔ ہاں، اس روز میں نے اپنے سب سے بڑے خوف کا سامنا تو کر لیا، پر یہ بھی سمجھ گئی کہ شاید ہر خوف دور کرنے کے لیے نہیں ہوتا، کچھ ڈھیٹ قسم کے خوف ہمیشہ آپ کے اندر کسی کونے میں اپنی جگہ بنائے رکھتے ہیں۔
کان بند، بے جان جسم، دل اپنے حلق میں لیے، تمام خوف واپس اپنے اندر دبائے، اس روز میں زندہ تو بچ گئی تھی، پر ایک چیز مان لی کہ ہوائی جہاز کا سفر میرے لیے نہیں۔ لیکن اس کے بعد کئی ہوائی سفر میرے نصیب میں تھے، جن میں سے ایک طے کرکے ابھی اتری ہوں اور سوچا کہ پھر بچ گئی ہوں تو کم از کم یہ بات ریکارڈ پہ لے آؤں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔