وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے نئی قانون سازی کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ 19ویں ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت ربڑ سٹیمپ کی ہو گئی ہے جب کہ 18ویں ترمیم میں ججز تعیناتی کے نظام میں توازن تھا۔
اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ جب 10 اپریل 2010 کو پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم منظور کی تو اس کی بعض شقوں پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کی فل کورٹ کے ججز کو اعتراض تھا۔
انہوں نے اس وقت کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ ججز کی تعیناتی میں پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات پر نظرثانی کی جائے، اگر حکومت نے ان کی خواہش پر عمل درآمد نہ کرایا تو 18ویں ترمیم کی بعض شقوں کو جیسے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی نشستوں میں سابق صدر پرویز مشرف نے جو اضافہ کیا تھا اور جسے 18ویں ترمیم میں تحفظ دیتے ہوئے برقرار رکھا تھا، وہ منسوخ کر دیں گے۔
اسی طرح سینیٹ کی نشستوں میں اضافہ اور خواتین اور اقلیتی نشستوں کے اجرا کو بھی آئین کے آرٹیکل 226 کے منافی قرار دے کر منسوخ کر دیں گے جس سے سارا نظام ہی زمین بوس ہو جائے گا۔
اگر 10 اپریل 2010 کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان، افتخار محمد چوہدری اور ان کے ہم نوا ججز کے ریمارکس پرنٹ میڈیا میں موجود ہیں جن میں انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ فل کورٹ کے آئندہ کے اجلاس میں خواتین اور اقلیتی نشستوں کو آئین کے آرٹیکل 226 کو مدنظر رکھتے ہوئے منسوخ کر دیں گے کیونکہ مخصوص نشستیں ’منتخب‘ کے زمرے میں نہیں آتیں۔
چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کا دباؤ قبول کرتے ہوئے اس وقت کی حکومت نے فوری طور پر 19ویں ترمیم کے ذریعے ججز کی تعیناتی کے اختیارات سپریم جوڈیشل کمیشن کو تفویض کر دیے۔
اب حکومت 19ویں ترمیم میں مزید ترمیم لانے کی خواہش مند ہے اور اس سلسلے میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال یا ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے جب آئین جزوی طور پر غیر فعال کیا تھا، اچانک 10 اکتوبر 2002 کی رات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کر دی جس کے اثرات ملک بھر کی اعلیٰ عدالتوں میں ان ججز پر پڑے جو چند روز میں ریٹائر ہو رہے تھے۔ بعد ازاں اس آرڈیننس کو 17ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنا دیا گیا۔
لیکن جب متحدہ مجلس عمل کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد نے 17ویں آئینی ترمیم کو قومی اسمبلی میں نامنظور کرنے کی تحریک پیش کرنے کا کہا تو ایس ایم ظفر کی وساطت سے معاہدہ کیا گیا، اور 23 دسمبر 2023 کو یہ ترمیم واپس لے لی گئی۔
وہ تمام ججز جو دو سال کی مدت سے لطف اندوز ہو رہے تھے ان کو راتوں رات گھر بھیج دیا گیا۔ حالانکہ جب دو سال کی توسیع کی گئی تھی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان ججز سے استدعا کی تھی کہ وہ ازخود دو سال کی توسیع لینے سے معذرت کر لیں لیکن مستفید ججز نے ان کی درخواست کو نظرانداز کر دیا تھا۔
اس صف میں ایسے ججز بھی شامل تھے جن کا اپنی صاف گوئی اور آزادانہ فیصلوں کی بنا پر بار اور عدلیہ میں مقام تھا۔
چیف جسٹس (ر) ناظم صدیقی اور ان کے چند ہم نوا ججز نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ دو سال کی مدت کی سہولت دوبارہ لاگو کی جائے اور اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ناظم صدیقی نے صدرمملکت جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے مدت ملازمت میں توسیع کی استدعا کی۔
جنرل پرویز مشرف کی آئین و قانون پر بڑی گہری نظر تھی، انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ 17ویں ترمیم کے بعد، جو یکم جنوری 2004 کو منظور ہو چکی تھی، ازخود دو سال کی توسیع کرنے کے اختیارات نہیں رکھتے۔
چیف جسٹس (ر) ناظم صدیقی نے جنرل پرویز مشرف سے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے رولز اور اختیارات کے تحت تین رکنی ججز کے ذریعے ایسا کروانے کی مجاز ہے تو صدر مشرف نے یقین دہانی کرائی کہ وہ تب اس کی منظوری دے دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں چیف جسٹس (ر) ناظم صدیقی نے قاضی حسین احمد بنام فیڈریشن اور پیپلز پارٹی لائیرز فورم بنام ریاست کے کیسز میں یہ اہم ترین فیصلہ دیا کہ آئین کا آرٹیکل 62 صدر مملکت کے انتخاب کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے جس میں لکھا ہوا تھا کہ صدر مملکت کے انتخاب میں وہی حصہ لے گا جو قومی اسمبلی کا رکن بننے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے تحت سروس آف پاکستان کا ملازم انتخاب میں حصہ لینے کا استحقاق نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس نے اپنے مفاد میں یہ شق حذف کر دی جس کا فائدہ صدر مشرف اور بعد ازاں صدر آصف علی زرداری کو پہنچا۔
اسی طرح کی خواہش عمران خان کے دورِ حکومت میں بعض ججز کے حوالے سے سامنے آئی تھی اور اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد خان اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے حوالے سے اس طرح کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ نیز اکتوبر 2023 کے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت دلائے جانے کی یقین دہانی کروائی جا رہی تھی اور خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ چیف جسٹس کی معیاد کو آرمی چیف کی طرز پر Tenure پوسٹ قرار دی جائے۔
شنید ہے کہ عمران خان نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا تھا اور سابق چیف پاکستان عمر عطا بندیال بھی اپنے فیصلوں میں مبینہ طور پر تحریک انصاف کی حمایت بھی کرا رہے تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں عدالتی رولنگ بھی جاری کرتے رہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ججز کی مدت ملازمت میں توسیع ذاتی مفاد کے پیش نظر ہر دور میں زیربحث رہی ہے۔
صدر پرویز مشرف نے اپریل 2002 میں ریفرنڈم کو آئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ کے ججز کے ساتھ خفیہ طور پر مذاکرات کیے اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس شیخ ریاض احمد نے قاضی حسین احمد بنام وفاق کے مقدمے میں ریفرنڈم کو آئینی قرار دے دیا اور اسے آئندہ آنے والی قومی اسمبلی کے ساتھ مشروط کر کے ججز کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کروائی گئی۔
پاکستان کے ابتدائی ایام میں سرکاری ملازمت کے لیے عمر کی حد 55 سال کی تھی جسے صدر ایوب خان نے 58 اور بعد ازاں 1973 کے دستور میں 60 برس مقرر کیا تھا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔