نریندر مودی کے بارے میں اپنے مشہور تاثرات کی وجہ سے جانے جانے والے ایک کامیڈین نے حکام پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے انہیں وزیر اعظم کے خلاف آزاد امیدوار کے طور پر کھڑنے ہونے کے لیے کاغذی کارروائی کی اجازت نہیں دی۔
29 سالہ سٹینڈ اپ کامیڈین شیام رنگیلا نے کہا کہ وہ شمالی شہر بنارس سے 73 سالہ وزیر اعظم کے خلاف الیکشن لڑنا چاہتے تھے، جو 2014 سے نریندر مودی کا انتخابی حلقہ رہا ہے، لیکن گذشتہ تین دنوں سے مقامی الیکشن افسران ان کے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کر رہے۔
اتر پردیش کے مذہبی شہر بنارس میں ووٹ انتخابات کے ساتویں اور آخری مرحلے میں ڈالے جائیں گے۔ یہ الیکشن چھ ہفتے جاری رہیں گے اور اس میں تقریبا ایک ارب رجسٹرڈ رائے دہندگان ووٹ ڈالیں گے۔
نریندر مودی منفرد طور پر تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کو بھاری اکثریت ملے گی۔
نریندر مودی غیر معمولی تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست بی جے پی کو بڑے پیمانے پر اکثریت حاصل ہوگی جو کہ مقبولیت کی لہر کا سامنا ہے اور وہ مخصوص طبقے کو مد نظر رکھ کر مہم چلا رہی ہے۔
مودی نے منگل کی صبح دریائے گنگا میں پوجا کرنے کے بعد شہر میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اسے دن بھر تمام بڑے انڈین نیوز چینلز پر دکھایا گیا۔ وزیر اعظم کی آمد سے قبل کاغذات نامزدگی مرکز میں سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
2017 میں سوشل میڈیا پر مودی کے بارے میں اپنے تاثرات کی وجہ سے وائرل ہونے والے سٹینڈ اپ کامیڈین رنگیلا نے کہا کہ وہ جمعے، پیر اور منگل کو صبح سے دوپہر تک نامزدگی دفتر کے باہر قطار میں کھڑے رہے۔
مغربی ریاست راجستھان سے تعلق رکھنے والے (اس کامیڈین) نے کہا کہ انہیں کاغذات نامزدگی جمع کرانا تو دور کی بات، اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے لیے دفتر کے اندر انتظار کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی گئی ویڈیو میں کہا کہ ’یہ صرف میں نہیں (تھا)، وہ کسی دوسرے آزاد امیدوار کے بھی کاغذات نامزدگی قبول نہیں کر رہے۔ وہ سہ پہر تین بجے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ میں تو پھر بھی کم پریشان ہوں۔ جو لوگ صبح آٹھ بجے سے قطار میں کھڑے ہوئے تھے وہ رو رہے ہیں۔ انہوں نے صبح سے نہ کچھ کھایا ہے اور نہ ہی پانی پیا، وہ سہ پہر تین بجے تک انتظار کرتے رہے۔
’کاغذات نامزدگی وصول کرنے والے دفتر کے افسروں نے ہم سے کہا ’براہ مہربانی سمجھیں‘۔ یہاں تک کہ وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں۔‘
بنارس روانگی سے قبل نئی دہلی میں دی انڈپینڈنٹ سے بات چیت کرتے ہوئے رنگیلا نے کہا کہ انہوں نے مودی کی آبائی ریاست گجرات کے شہر سورت جیسی کچھ بڑی سیٹوں پر ان کے مطابق ’غیر منصفانہ اور سیاسی مسابقت کے خلاف امتیازی سلوک‘ کی وجہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار مکیش دلال کو بلا سورت سے مقابلہ فاتح قرار دیا گیا جس سے قبل حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے امیدوار نیلیش کمبھانی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے اور دیگر آٹھ امیدواروں نے اعلان دستبرداری کیا۔
مقامی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ نیلیش کمبھانی کے کاغذات نامزدگی ان کے تجویز کنندگان کے دستخطوں میں تضاد کی وجہ سے مسترد کیے گئے، لیکن حزب اختلاف کے متعدد مقامی سیاست دانوں نے رکاوٹ ڈالنے اور پولیس کی جانب سے ڈرانے دھمکانے کے سنگین الزام عائد کیے ہیں۔
رنگیلا نے انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ ’مودی کل 543 سیٹوں میں سے 400 سیٹیں لینے کی بات کر رہے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو 450 نشستیں بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں ایک جمہوری ملک میں اس طرح سے (آپشن کی کمی) دو بھی ملتی ہیں، تو یہ مسئلہ ہے کیونکہ پھر آپ لوگوں سے ووٹ ڈالنے کا حق چھین رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے دلیل دی کہ اگر انڈین جمہوریت کو پھلنا پھولنا ہے تو انڈیا کے لوگوں کے پاس انتخابات کے وقت آپشنز ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ وہ رائے دہندگان کے لیے اس خلا کو پر کرنا چاہتے ہیں، بے شک ان کے پاس وزیر اعظم کے لیے خطرہ بننے ولی سیاسی ذہانت نہیں ہے۔
رنگیلا نے کہا کہ ’میں وہاں پورے ملک کو دیکھتا ہوں۔ میں مودی کے خلاف کھڑے ہو کر بنارس سے پورے انڈیا سے خطاب کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہاں کے رائے دہندگان کم از کم میری بات سنیں اور اپنا ووٹ ڈالیں۔ یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے، لوگوں کو انتخاب کا موقع دیں۔‘
لیکن جب وہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے جمعے کو بنارس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ انہیں مطلوبہ فارم کی کاپی نہیں دی گئی اور انہیں دیگر امیدواروں کے ساتھ گھنٹوں قطار میں انتظار کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ قطار میں کھڑے دیگر لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنا سرکاری شناختی کارڈ دیں، 10 تجویز کنندہ ہوں اور سرکاری فارم کے لیے اپنے فون نمبرز جمع کروائیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے طے شدہ قواعد کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے امیدواروں کا کم از کم ایک تجویز کنندہ اسی حلقے کا رجسٹرڈ ووٹر ہونا چاہیے۔
رنگیلا نے کہا حتیٰ کہ منگل کو گھنٹوں طویل تیسری کوشش کے دوران انہیں دفتر کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں کہا کہ ’میں آج دیکھ رہا ہوں کہ جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، اسے مکمل طور پر قتل نہیں کیا گیا لیکن میں نے جمہوریت کا گلا گھونٹتے دیکھا۔ وہ کسی کو بھی دفتر میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔‘
رنگیلا نے وزیر اعظم کے خلاف اصل میں جیتنے کا تو سوچا بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف ان کے خلاف الکشن لڑنے کی اجازت ملنے کو ایک فتح کے طور پر دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا ’مجھے ان ووٹوں کی ضرورت نہیں جن کی حفاظت مودی کر رہے ہیں۔ ان کے تمام ووٹر ان کی حمایت کر سکتے ہیں اور جو لوگ مجھے ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ ووٹ دے سکتے ہیں، لیکن انہیں مودی خلاف مقابلے کے لیے کم از کم ایک نام ملنا چاہیے۔ ووٹنگ مشین پرمودی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ دیکھیں کہ جمہوریت کو کس طرح آہستہ آہستہ قتل کیا جا رہا ہے۔‘
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بنارس میں الیکشن کمیشن کے عہدیداروں نے آزاد امیدواروں کے ساتھ امتیازی سلوک کی خبروں کی تردید کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حفاظتی اقدامات میں اضافہ اور تمام پروٹوکول پر عمل کیا گیا تاکہ مودی کو ذاتی طور پر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا سکیں۔
بنارس میں مودی بلا مقابلہ انتخاب نہیں لڑیں گے – تیسری بار شہر میں ان کا سب سے بڑا مقابلہ اپوزیشن کانگریس پارٹی کے اجے رائے سے ہوگا۔
2019 میں کانگریس اس حلقے میں تیسرے نمبر پر رہی، جس نے صرف 152،000 ووٹ حاصل کیے جبکہ علاقائی سماج وادی پارٹی کی نمائندگی کرنے والی شالینی یادو کو 195،000 سے زیادہ ووٹ ملے۔
نریندر مودی نے 674,000 سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اس بار وارانسی کے نتائج کا اعلان 4 جون کو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ کیا جائے گا۔
© The Independent