سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات کو سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی جانب سے 15 مئی کو کی گئی پریس کانفرنس کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے خلاف ازخود نوٹس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ جمعہ 17 مئی کو سماعت کرے گا۔ جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر بھی بنچ کا حصہ ہوں گے۔
اس سے قبل جمعرات کو ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی جانب سے ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی دہری شہریت کے معاملے پر لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ آئین پاکستان میں جج بننے کے لیے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے گذشتہ روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے جسٹس بابر ستار کی شہریت کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط لکھا، لیکن 15 دن کے باوجود بھی انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر پاکستانی کسی سے بھی کوئی بھی بات پوچھ سکتا ہے، لیکن پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اس حوالے سے ابہام بڑھ رہا ہے کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے۔
اس پریس کانفرنس کے بعد جمعرات کو رجسٹرار آفس سے جاری کیے گئے جواب میں کہا گیا کہ کسی بھی وکیل سے ہائی کورٹ کا جج بنتے وقت دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں۔
مزید کہا گیا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے چھ ججوں کے خط پر از خود کیس کی کارروائی میں اس بات کو واضح کیا اور بتایا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر بحث آیا، جس کے بعد کونسل نے انہیں بطور جج مقرر کرنے کی منظوری دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید کہا گیا کہ ’ہائی کورٹ کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی تھی کہ جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ وہ گرین کارڈ کے حامل ہیں۔‘
فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جسٹس بابر ستار کا موقف ہے کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو انہوں نے رپورٹ بھیجی تھی، اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر تحریری طور پر کوئی چیز ہوگی لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔
اس حوالے سے رجسٹرار آفس نے اپنے جواب میں کہا کہ ’عدالت جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار ان دنوں موضوع گفتگو ہیں۔ رواں ہفتے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھا گیا ان کا ایک مبینہ خط بھی سوشل میڈیا پر منظر عام پر آیا تھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران انہیں اس ’کیس سے پیچھے ہٹ‘ جانے کے پیغامات موصول ہوئے تھے۔
جس پر منگل کو اٹارنی جنرل منصور اعوان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یا کوئی بھی ریاستی ادارہ کسی بھی طرح نہ تو عدلیہ کے معاملات یا آئینی فرائض میں مداخلت کرسکتا ہے اور نہ کرتا ہے۔