کیا مصنوعی ذہانت فلموں میں انسانی جذبات پیش کر سکے گی؟

مختلف اندازوں کے مطابق ایک سال کے اندر اندر انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں 90 فیصد آن لائن مواد مصنوعی ذہانت کا تخلیق یا تیار کردہ ہو گا۔

25 مارچ، 2024 کو سپین کے شہر بارسلونا میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ایک فیشن ماڈل کی تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

کوئی اخلاقی سوال مصنوعی ذہانت کا راستہ نہیں روک سکتا۔ مختلف اندازوں کے مطابق ایک سال کے اندر اندر انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں 90 فیصد آن لائن مواد مصنوعی ذہانت کا تخلیق یا تیار کردہ ہو گا۔

گذشتہ برس جرمنی کے ایک فوٹوگرافر بورس ایلڈاگسن کی ایک تصویر کو سونی ورلڈ فوٹو گرافی ایوارڈ میں فاتح قرار دیا گیا تھا۔ ان کی کیٹیگری ’تخلیفی فوٹوگرافی‘ تھی۔

روایتی طور پر ’تخلیق‘ اور ’مشین‘ ایک دوسرے کی ضد چلے آئے ہیں۔ ہالی وڈ کی مشہور زمانہ ایکشن فلم ’ٹرمینیٹر 2: ججمنٹ ڈے‘ اگر آپ کو یاد ہو تو اس میں انسان اور مشین کا جسمانی مقابلہ تھا۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے بعد یہ جسمانی سے زیادہ ذہنی اور تخلیقی کشمکش میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بورس ایلڈاگسن نے یہ کہتے ہوئے گویا بم گرا دیا تھا کہ ’میں نے یہ تصویر مصنوعی ذہانت سے تیار کر کے شرارتاً مقابلے میں بھیج دی تھی۔‘

انسان کے تخلیقی غرور کا بدترین دشمن میدان میں ہے۔ مصنوعی ذہانت نے سینما سمیت ہر تخلیقی شعبے کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔

فلموں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی بات پرانی ہو گئی۔ اب چیٹ بوٹ خود فلم بنا رہے ہیں۔ ابھی اس کی لگامیں انسان کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر کب تک؟

گذشتہ ہفتے نیویارک میں رن وے AI فلم فیسٹیول منعقد ہوا جس میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ مختصر دورانیے کی فلمیں بھیجی گئی تھیں۔

تقریباً تین ہزار فلموں میں سے دس بہترین فلموں کا انتخاب کیا گیا اور نہ صرف ان کی نمائش کی گئی بلکہ انعامات سے بھی نوازا گیا۔

مصنوعی ذہانت سے تیار فلموں اور فیسٹیولز کا سلسلہ وبا کی طرح پھیل چکا ہے اور اس کی مار دبئی اور سعودی عرب جیسے ان ممالک تک بھی ہے جہاں انڈسٹری کے ابتدائی خد و خال وضع ہو رہے ہیں۔

گذشتہ برس کے آخر میں ایکسپو سٹی دبئی میں اسی طرح کا ایک میلہ سجایا گیا تھا۔

یہی مشق سعودی عرب میں دہرائی گئی تھی جہاں دنیا بھر سے پیشہ ور اور شوقیہ فلم تخلیق کاروں کو ایک مختصر فلم پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔

یہ فیسٹیول اپنے اپنے ایوارڈ شو منعقد کر رہے ہیں جن میں زیادہ تر فلم ساز نوجوان ہیں۔

نیویارک فیسٹیول میں شامل ایک فلم کا نام تھا ’دادیاں کھو جانے کے بعد کہاں جاتی ہیں؟‘ اسے نوجوان فرانسیسی فلم ڈائریکٹر Léo Cannone نے تخلیق کیا جس میں بچپن کے اہم مخصمے کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

فلم میں ایک بار بھی ’موت‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا کیونکہ چھوٹے بچوں کے لیے بس یہ ہوتا ہے کہ ان کی دادو کہیں چلی گئی ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ کہاں گئیں اور جس جگہ گئی ہیں وہاں کیا ہوتا ہو گا؟

فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ سب دادیاں ایک جگہ جمع ہوتی رہتی ہیں، پھر وہ دیو قامت خوبصورت درختوں اور برفانی تودوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

اگر آپ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ فلمیں دیکھیں تو ایک مخصوص چھاپ کے باوجود وہ سب ایک دوسرے سے الگ نظر آتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا پھیرا گیا رندا صاف نظر آتا ہے لیکن بہت جلد یہ اپنی بہترین شکل میں سامنے آنے لگے گا۔

فوٹوگرافر بورس ایلڈاگسن نے کہا تھا کہ تصویر بھیجتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ دیکھیں منصفین کو پتہ چلتا ہے کہ تصویر میں مصنوعی ذہانت استعمال کی گئی ہے۔

یہی کچھ فلموں کے ساتھ بھی ہونے والا ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال اتنی مہارت سے کیا جائے گا کہ فرق کرنا مشکل ہو گا۔

ایک وقت تھا ’انسیپشن‘ اور ’انٹرسٹیلر‘ دیکھ کر لگتا تھا کہ مستقبل کے بارے میں ان سے زیادہ حیرت انگیز فلم کیسے تخلیق کی جا سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں ہمارے کئی دیوتا زمین بوس ہو رہے ہیں۔

ان کی دکھائی گئی مستقبل کی دنیا ہمارے جیتے جی ماضی میں تبدیل ہو جائے گی۔

’انسیپشن‘ اور ’انٹرسٹیلر‘ تقریباً ڈیڑھ ڈیڑھ سو ملین ڈالر یعنی 15 کروڑ ڈالر کے بجٹ سے تیار ہوئی تھیں۔ دوسری طرف مصنوعی ذہانت سے تیار ہونے والی فلم کا خرچ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ مارکیٹ میں کتنا سخت مقابلہ ہو گا۔

ساٹھ کی دہائی کے دوران ہالی وڈ میں قدم رکھنے والے ’نئی لہر‘ کے بانی آج بھی فلمیں بنا رہے ہیں۔ فرانسز فورڈ کوپلا کی ایک فلم رواں برس ریلیز کے لیے تیار ہے۔

مارٹن سکورسیزی نے ’کلرز آف فلاور مون‘ سے ثابت کیا کہ ابھی ان کے پاس دکھانے اور سنانے کو بہت کچھ باقی ہے۔ کیا آئندہ نسل ایسی لمبی اننگز کھیل سکے گی؟

لمبی اننگز سے کہیں زیادہ قابل بحث سوال یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت انسان کی جذباتی کیفیت گرفت میں لے سکے گی؟ اس کا براہ راست جواب دینے کے بجائے ایک مثال پیش کرنا کافی رہے گا۔

بعد میں ’بنڈت کوئین‘ سے بالی وڈ کو نئی بلندیوں سے روشناس کرانے والے شیکھر کپور کی پہلی فلم ’معصوم‘ تھی۔ ’تجھ سے ناراض نہیں زندگی میں حیران ہوں‘ جیسے گلزار کے شاہکار گیتوں سے سجی پہ فلم ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جس میں باپ اپنے بیٹے کو ’اپنانے‘ سے گریزاں ہے۔

بڑا ہونے کے بعد اس بچے کا اپنے باپ سے کیا تعلق ہو گا؟ انتقام کی بھڑکتی آگ ہو گی یا محض محبت اور نفرت کا ملا جلا جذبہ؟ ’معصوم‘ کا سیکوئیل تیار کرنے کے یہ ممکنہ بنیادی سوالات ہو سکتے ہیں۔

شیکھر کپور نے جب مصنوعی ذہانت سے اپنی 1983 کی فلم اور ممکنہ سیکوئیل کے متعلق پوچھا تو اس کا جواب حیران کن تھا۔

مصنوعی ذہانت نہ صرف فلم کی جذباتی فضا سمجھنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس نے پلک جھپکتے میں سیکوئیل کے ممکنہ راستے بھی بتا دیے۔ یہی نہیں سکرپٹ تک تیار کر دیا۔

ہم طویل عرصے تک ’ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت‘ دہراتے رہے۔ مصنوعی ذہانت انسان کی داخلی کیفیات کو نہ صرف گرفت میں لے رہی ہے بلکہ اس کا اظہار بھی کر رہی ہے۔

اگر ہمارا موقف تبدیل نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ مستقبل آنے والی نسل کا ہے جو مشین کو اپنے جذبات کا دشمن نہیں سمجھتی۔

سال 2014 میں پانچ آسکر نامزدگیاں حاصل کرنے والی ہالی وڈ فلم Her انسان اور مصنوعی ذہانت کے جذباتی تعلق پر بننے والی شاید خوبصورت ترین فلم ہے۔

فلم کا مرکزی کردار ایک ایسے لکھاری کا ہے جس کی ملازمت خط لکھنا ہے۔ انتہائی جذباتی اور حساس شخص لیکن گھریلو حالات ابتر چل رہے ہیں۔

من مرضی کی شادی کے بعد اب علیحدگی کا مرحلہ ہے۔ اسی دوران وہ مصنوعی ذہانت کا آپریٹنگ سسٹم خریدتا ہے، اس سے دل کی باتیں کرتا ہے، مشورے کرتا ہے۔

وہ شخص اس کے ساتھ وہ سب کچھ شیئر کرتا ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔

بالآخر مصنوعی ذہانت کے آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ اس کا ایسا گہرا یارانہ ہو جاتا ہے کہ وہ تمام انسانی رشتوں پہ لعنت بھیج کر ایک مزے دار زندگی گزارنے لگتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسا نہیں کہ یہ محض ایک فلم کا سین ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف ہمارے جذبات سمجھے رہی ہے بلکہ ان میں سنبھالنے کی مشکل ذمہ داری بھی ادا کرنے جا رہی ہے۔

اب آپ خود سوچیں کہ یہ سوال کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے کہ مصنوعی ذہانت محض ٹیکنالوجی ہے، وہ فلم بنا لے گی مگر جذبات کہاں سے لائے گی؟

ایسا ہی ایک مضحکہ خیز سوال ’اخلاقی اقدار‘ کا ہے، سینما سے جڑی اخلاقیات۔ کاپی رائٹس وغیرہ۔

انیل کپور نے عدالت سے فیصلہ تک لے لیا ہے کہ میرا امیج یا ویڈیو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کرنا قابل دست درازی جرم قرار دیا جائے۔

اب خدا نہ کرے مصنوعی ذہانت پہ ایسا کڑا وقت آئے کہ وہ انیل کپور کی کاپی تیار کرے۔

لیکن پرانے اداکار جو دنیا سے چلے گئے، جنہیں لوگ دیکھنا چاہتے ہیں وہ فلموں میں اپنا کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ 1955 میں کار حادثے کے دوران ہلاک ہونے والے 24 سالہ جیمز ڈین ’بیک ٹو ایڈن‘ کا حصہ بن چکے ہیں۔

کوئی اخلاقی سوال مصنوعی ذہانت کا راستہ نہیں روک سکتا۔ مختلف اندازوں کے مطابق ایک سال کے اندر اندر انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں 90 فیصد آن لائن مواد مصنوعی ذہانت کا تخلیق یا تیار کردہ ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی